فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ
پھر ظالموں نے اس قول کی جگہ جو ان سے کہا گیا تھا ایک دوسرا قول بدل دیا، تو ہم نے ظالموں پر ان کے فسق کے سبب آسمان سے ایک عذاب اتار دیا
﴿فَبَدَّلَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا﴾۔ یعنی ان لوگوں نے اس قول کو بدل دیا تھا جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے (فَبَدَّلُوْا) ” ان سب نے بدل دیا“ نہیں فرمایا کیونکہ سب لوگ قول کو بدلنے والے نہ تھے ﴿ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَھُمْ﴾ ” بات سوائے اس بات کے جو ان سے کہی گئی تھی“ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی توہین اور اس سے استہزا کرتے ہوئے (حِطَّۃٌ) کی بجائے (حَبَّۃٌ فِیْ حِنْطَۃٍ) کا لفظ کہا۔ جب ” قول“ کو باوجود اس کے کہ وہ آسان تھا، انہوں نے اسے بدل دیا تو ” فعل“ کو بدلنے کی ان سے بدرجہ اولیٰ توقع کی جاسکتی ہے۔ اس لئے وہ (اللہ تعالیٰ کے حکم کے برعکس) اپنے سرینوں پر گھسٹتے ہوئے دروازے میں داخل ہوئے۔ چونکہ یہ سرکشی اللہ تعالیٰ کے عذاب کے واقع ہونے کا سب سے بڑا سبب تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا﴾ یعنی ان میں سے ظالموں پر عذاب نازل کیا۔ ﴿ مِّنَ السَّمَاءِ﴾ یعنی ان کی نافرمانی اور ان کے بغاوت کے رویہ کے سبب سے (آسمان سے یہ عذاب نازل ہوا)