إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ
اے میرے نبی ! جب اللہ کی مدد ( ١) آگئی ہے، اور مکہ فتح ہوگیا ہے
اس سورۃ کریمہ میں ایک خوش خبری ہے، اس خوش خبری کے حاصل ہوجانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک حکم ہے ، نیز اس میں اس خوش خبری پر مترتب ہونے والے احوال کی طرف اشارہ اور اس پر تنبیہ ہے ۔خوش خبری اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نصرت ،فتح مکہ اور لوگوں کے اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہونے کی ہے ان میں سے بہت لوگ آپ کے دشمن تھے ،اس کے بعد وہی لوگ آپ کے اعوان وانصار ہوں گے اور جس چیز کے بارے میں خوش خبری دی گئی تھی وہ حرف بحرف پوری ہوئی۔ رہافتح ونصرت کے بعد حکم توا للہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ اس فتح ونصرت پر اس کاشکر ادا کریں اس کی حمدوثنا کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کریں اور اس سے استغفار کریں۔ رہا اشارہ تو اس میں دو اشارے ہیں۔ اول: دین اسلام دائمی فتح ونصرت سے بہرہ مند رہے گا، اس کے رسول کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے ساتھ تسبیح اور استغفار پر اس نصرت میں اضافہ ہوگا، کیونکہ تسبیح واستغفار ،شکر ہی شمار ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ﴾( ابراہیم: ۱۴؍۷) ”اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا ۔“ اور یہ چیز خلفائے راشدین کے زمانے میں اور ان کے بعد بھی امت کو حاصل ہوئی ۔اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیشہ ہم رکاب رہی یہاں تک کہ اسلام اس مقام پر پہنچ گیا جہاں تمام ادیان میں سے کوئی دین نہیں پہنچ سکا۔ حتیٰ کہ امت سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی مخالفت میں افعال صادر ہونے لگے۔ پس اللہ تعالیٰ نے تفرق کلمہ اور تشتت امر کے ذریعے سے انہیں آزمایا۔ پس پھرجو ہونا تھا ہوا۔ بایں ہمہ اس امت پر اور اس دین پر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور اس کالطف وکرم ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ خیال کی وہاں تک رسائی ہی ہے۔ دوم: رہا دوسرا اشارہ تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کی اجل قریب آگئی ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی عمر مبارک، فضیلت والی عمر ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے اور اس نے مقرر فرمادیا ہے کہ فضیلت والے امور کا اختتام، استغفار کے ساتھ ہو، مثلا :نماز اور حج وغیرہ۔ پس اللہ تعالیٰ کا اس حال میں آپ کو حمدواستغفار کا حکم دینا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کی وفات کا وقت قریب آگیا ہے۔ اب آپ کو اپنے رب کی ملاقات کے لیے مستعد اور تیار رہنا چاہیےاور آپ کو اپنی عمر کا اختتام اس افضل ترین چیز پر کرنا چاہیے جو آپ موجود پاتے ہیں۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔ چنانچہ آپ قرآن کی (اس آیت کی )تاویل کرتے ہوئے، اپنی نماز کے اندر رکوع وسجود میں نہایت کثرت سے یہ پڑھا کرتے تھے﴿سبحانک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی﴾”اے اللہ !اے ہمارے رب ! ہم تیری حمد وثنا کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں، اے اللہ! مجھے بخش دے۔“