يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اے ایمان والو ! انصاف (129) پر سختی کے ساتھ قائم رہنے والے، اللہ کے لیے گواہی دینے والے بنو، چاہے اس کی ضرب اپنی ذات پر، یا والدین اور رشتہ داروں پر کیوں نہ پڑتی ہو، اور چاہے وہ آدمی مالدار ہو یا فقیر، اللہ ان دونوں سے زیادہ حقدار ہے، پس خواہش نفس کی اتباع کرتے ہوئے انصاف نہ چھوڑ دو، اور اگر کج بیانی کروگے یا گواہی دینے سے پہلو تہی کروگے، تو بے شک اللہ تمہارے کیے کی اچھی طرح خبر رکھتا ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ انصاف پر قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ کے لئے گواہی دینے والے بن جائیں۔ (اَلْقَوَّام) مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی اپنے تمام احوال میں عدل پر قائم رہو (قِسْطٌ) سے مراد حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں عدل و انصاف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے حقوق میں انصاف یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو اس کی نافرمانی میں استعمال نہ کیا جائے، بلکہ ان کو اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں صرف کیا جائے اور حقوق العباد میں عدل و انصاف یہ ہے کہ بندوں کے وہ تمام حقوق ادا کئے جائیں جو تجھ پر اسی طرح واجب ہیں جس طرح تیرے حقوق ان پر واجب ہیں اور تو اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ہے پس تو نفقات واجبہ اور قرض وغیرہ ادا کر اور تو لوگوں سے اسی اخلاق و حسن صلہ کے ساتھ معاملہ کر، جو تو اپنے بارے میں ان سے چاہتا ہے۔ سب سے بڑا انصاف، باتوں اور بات کہنے والوں کے بارے میں ہے۔ دو باتوں میں سے کسی ایک بات کے حق میں یا کسی تنازع کے فریقین میں کسی فریق کے حق میں محض اس وجہ سے فیصلہ نہ کرے کہ اسے اس بات سے یافریق سے کوئی نسبت ہے یا اس کی طرف میلان ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان عدم کو مقدم رکھے۔ عدل و انصاف کی ایک قسم یہ ہے کہ تو اس شہادت کو ادا کر جو تیرے ذمہ عائد ہے خواہ وہ کسی ہی کے خلاف کیوں نہ ہو خواہ یہ شہادت تیرے محبوب لوگوں کے خلاف، بلکہ خود تیری اپنی ذات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿شُهَدَاءَ لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللّٰهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا﴾ ” اللہ کے لئے سچی گواہی دینے والے اگرچہ وہ تمہارے اپنے خلاف ہو یا والدین کے یا رشتہ داروں کے وہ شخص اگر امیر ہو یا فقیر، پس اللہ زیادہ حق دار ہے بہ نسبت ان دونوں کے۔“ یعنی کسی دولت مند کی اس کی دولت کی وجہ سے رعایت کرو نہ کسی محتاج پر بزعم خویش ترس کھاتے ہوئے اس کی رعایت کرو، بلکہ صحیح صحیح شہادت دو، خواہ کسی ہی کے خلاف کیوں نہ ہو۔ عدل و انصاف قائم کرنا عظیم ترین امور میں شمار ہوتا ہے، نیز یہ چیز عدل قائم کرنے والے کے دین، ورع اور اسلام میں اس کے مقام پر دلالت کرتی ہے۔ پس یہ بات متعین ہے کہ جو کوئی اپنے نفس کا خیر خواہ ہے اور وہ اس کی نجات چاہتا ہے، تو وہ عدل کا پورا پورا اہتمام کرے، اس کو مدنظر رکھے اور اپنے ارادے کا مرکز بنائے رکھے اور نفس سے ہر اس داعیے کو دور کر دے جو عدل کے ارادے سے مانع اور اس پر عمل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہو اور انصاف کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ خواہشات نفس کی پیروی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس رکاوٹ کو دور کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا﴾ ” تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔“ یعنی تم حق کی مخالفت میں اپنے نفس کی اتباع نہ کرو۔ اگر تم نے اپنے نفس کی پیروی کی تو راہ صواب سے ہٹ جاؤ گے اور تم عدل و انصاف کی توفیق سے محروم ہوجاؤ گے، کیونکہ خواہش نفس یا تو انسان کی بصیرت کو اندھا کردیتی ہے اور اسے حق باطل اور باطل حق دکھائی دیتا ہے۔ یا وہ حق کو پہچان لیتا ہے مگر اپنی خواہش نفس کی خاطر اسے چھوڑ دیتا ہے۔ پس جو شخص خواہش نفس سے محفوظ رہا اسے حق کی توفیق عطا ہوئی ہے اور وہ صراط مستقیم کی طرف راہنمائی سے نوازا جاتا ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح کردیا کہ عدل و انصاف کو قائم کرنا واجب ہے، تو اس نے ہر اس چیز سے بھی روک دیا جو عدل کی ضد ہے۔ یعنی شہادت وغیرہ میں زبان کو حق سے ہٹا دینا اور ہر لحاظ سے یا کسی ایک پہلو سے نطق زبان کو صواب مقصود سے پھیر دینا اور اسی میں، شہادت میں تحریف کرنا، اس کی عدم تکمیل اور شاہد کا شہادت کی تاویل کرتے ہوئے اس کا رخ کسی اور طرف پھیر دینا، بھی شامل ہے۔ اس لئے کہ یہ بھی (لَيُّ) زبان کی کجی میں سے ہے، کیونکہ یہ حق سے انحراف ہے۔ ﴿أَوْ تُعْرِضُوا﴾” یا تم اعراض کرو۔“ یعنی اگر تم اس عدل و انصاف کو ترک کر دو جس کا دار و مدار تم پر ہے جیسے شاہد کا شہادت کو ترک کردینا یا حاکم کا اپنے فیصلے کو ترک کردینا جو کہ اس پر واجب تھا۔ ﴿فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا﴾” تو (جان رکھو) اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔“ یعنی وہ تمہارے افعال کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور تمہارے ظاہر و باطن تمام اعمال کا علم رکھتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لئے سخت تہدید ہے جو زبان سے کجی اختیار کرتا یا حق سے اعراض کرتا ہے اور وہ شخص اس تہدید کا بدرجہ اولیٰ مستحق ہے جو باطل فیصلہ کرتا یا جھوٹی گواہی دیتا ہے۔ اس لئے کہ اس کا جرم سب سے بڑا ہے، کیونکہ پہلے دو اشخاص نے حق کو ترک کیا اور اس نے باطل کو قائم کیا۔