سورة الفجر - آیت 1

َالْفَجْرِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

فجر کے وقت کی قسم (١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

ظاہر ہے کہ مقسم بہ ہی مقسم علیہ ہے ۔ جب معاملہ ظاہر اور اہم ہو تو یہ جائز اور مستعمل ہے ، اس مقام پر بھی اسی طرح ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فجر کی قسم کھائی ہے جو رات کا آخر اور دن کا مقدمہ ہے ، کیونکہ رات کے لوٹنے اور دن کے آنے میں ایسی نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت پر دلالت کرتی ہیں ، نیز یہ کہ تمام امور کی تدبیر کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ فجر کے و قت ایک نہایت فضیلت اور عظمت والی نماز واقع ہوتی ہے اور وہ اس کی اہل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی قسم کھائے ، اس لیے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے اور صحیح قول کے مطابق یہ رمضان المبارک یا ذوالحج کی دس راتیں ہیں ، کیونکہ یہ راتیں فضٗیلت والے ایام پر مشتمل ہیں ۔ ان راتوں میں ایسی عبادت وقربات واقع ہوتی ہیں جو دوسرے ایام میں نہیں ہوتیں۔ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ایک طاق رات میں لیلۃ القدر واقع ہوتی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ان کے دنوں میں رمضان کے آخری عشرے کے روزے رکھے جاتے ہیں جو ارکان اسلام میں سے ایک بہت بڑا رکن ہے اور ذو الحج کے پہلے عشرے میں عرفہ میں وقوف ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مغفرت سے نوازتا ہے ، جس سے شیطان غمگین ہوتا ہے ۔ شیطان جس قدر حقیر اور دھتکارا ہوا عرفہ کے دن ہوتا ہے ، اتنا حقیر اور دھتکارا ہوا کبھی نہیں دیکھا گیا ، کیونکہ اس روز وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر فرشتوں اور اس کی طرف سے رحمت کو اترتے دیکھتا ہے۔ ان دنوں میں حج اور عمرے کے بہت سے افعال واقع ہوتے ہیں اور اشیا ء قابل تعظیم اور اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کی قسم کھائی جائے۔