سورة النسآء - آیت 110

وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جو شخص کوئی گناہ (111) کرے گا یا اپنے آپ پر ظلم کرے گا، پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے گا، تو اللہ کو بڑا مغفرت کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا پائے گا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّـهَ يَجِدِ اللَّـهَ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾ ” اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرلے، پھر اللہ سے بخشش مانگے تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جرأت کرتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے ایسی مغفرت طلب کرتا ہے جو گناہ کے اقرار، اس پرپشیمانی، اس گناہ سے رک جانے اور اس گناہ کو دوبارہ نہ کرنے کے عزم کو مستلزم ہے تو ایسے ہی شخص کے ساتھ اس ہستی نے مغفرت اور رحمت کا وعدہ کیا ہے جو وعدہ خلافی نہیں کرتی۔ پس اس سے جو گناہ صادر ہوچکا ہوتا ہے وہ اس کو معاف کردیتا ہے نیز اس عیب اور نقص کو اس سے زائل کردیتا ہے جو اس گناہ پر مترتب ہوتا ہے اور اس کے سابقہ اعمال صالحہ اس کو لوٹا دیتا ہے اور مستقبل میں اسے مزید اعمال صالحہ کی توفیق عطا کرتا ہے۔ اس کے اور اپنی توفیق کے درمیان اس کے گزشتہ گناہ کو حائل نہیں ہونے دیتا۔ کیونکہ اس نے اس گناہ کو بخش دیا ہے اور جب وہ گناہ کو بخش دیتا ہے تو وہ ہر اس چیز کو بخش دیتا ہے جو اس گناہ کے نتیجے میں مرتب ہوتی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ” براعمل“ علی الاطلاق تمام گناہوں کو، خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں، شامل ہے اور (سوء) ” برائی“ اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ برے عمل کے مرتکب کو اس پر مترتب ہونے والا عذاب برا لگتا ہے۔ نیز برا عمل فی نفسہ برا ہے، اچھا نہیں ہے۔ اسی طرح نفس کا ظلم علی الاطلاق شرک اور اس سے کم تر ظلم وغیرہ سب کو شامل ہے، مگر ان میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ مقرون کیا جائے تو ہر ایک کی اس کے مناسب حال تفسیر کی جائے گی۔ یہاں برے عمل کی تفسیر ” ظلم‘‘ کی جائے گی جو لوگوں کو برا لگتا ہے اور وہ ہے خون مال اور عزت و ناموس میں ان کا ایک دوسرے پر ظلم اور نفس کے ظلم کی تفسیر ” ظلم اور گناہ“ بیان کی جائے گی جس کا تعلق اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہے۔ نفس کے ظلم کو ظلم اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ انسان اپنے نفس کا مالک نہیں کہ وہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے۔ انسان کے نفس کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہے، اس نے یہ نفس اپنے بندے کو امانت کے طور پر عطا کر کے اسے حکم دیا ہے کہ وہ اسے انصاف وعدل کی راہ پر گامزن کرے اور علم و عمل کے اعتبار سے اس سے صراط مستقیم کا التزام کروائے۔ جس چیز کا اسے حکم دیا گیا ہے وہ اسے سکھائے اور جو اس پر واجب ہے اس سے اس پر عمل کروائے۔ اس کے علاوہ کسی اور راستے میں اس کی سعی اور کوشش اپنے نفس پر ظلم، خیانت اس عدل کے راستے سے انحراف ہے جس کی ضد ظلم و جور ہے۔