عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ
وہ (جہنم میں) مشقت اٹھانے والے اور تھک کر چور ہوں گے
﴿عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ﴾ ” سخت محنت کرنے والے، تھکے ماندے۔“ یعنی عذاب میں سخت تھکے ہوئے ہوں گے ، ان کو چہروں کے بل گھسیٹا جائے گا اور آگ ان کے چہروں کو ڈھانپ لے گی۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ﴾ میں اس معنی کا احتمال ہے کہ دنیا کے اندر مشقت اٹھانے والے چہرے، اس روز جھکے ہوئے ہوں گے۔ دنیا کے اندر (ان کی مشقت یہ تھی) کہ وہ بڑے عبادت گزار اور عمل کرنے والے تھے۔ مگر چونکہ اس عمل میں ایمان کی شرط معدوم تھی اس لیے عمل قیامت کے دن اڑتا ہوا غبار بن جائے گا۔ یہ احتمال معنی کے اعتبار سے اگرچہ صحیح ہے مگر سیاق کلام اس پر دلالت نہیں کرتا بلکہ پہلے معنی ہی قطعی طور پر صحیح ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ظرف کے ساتھ مقید کیا ہےاور وہ ہے قیامت کا دن ، کیونکہ یہاں عمومی طور پر اہل جہنم کا ذکر کرنا مقصود ہے اور یہ احتمال ، اہل جہنم کی نسبت سے، بہت ہی چھوٹا ساجز ہے ، کیونکہ یہ کلام ، قیامت کی سختی کے، لوگوں کو ڈھانپ لینے کے حال میں ہے اور اس میں دنیا کے اندر ان کے احوال سے کوئی تعرض نہیں۔