اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
ہمیں سیدھی راہ پر چلا
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ یعنی سیدھے راستے کی طرف ہماری راہ نمائی فرما اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق سے ہمیں نواز۔ (صراط مستقیم) سے مراد وہ واضح راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی جنت تک پہنچاتا ہے۔ یہ معرفت حق اور اس پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔ پس اس راستے کی طرف راہ نمائی فرما اور اس راستے میں ہمیں اپنی راہ نمائی سے نواز۔ صرف مستقیم کی طرف راہنمائی کا مطلب، دین اسلام کو اختیار کرنا اور اسلام کے سوا دیگر تمام ادیان کا ترک کردینا ہے اور صراط مستقیم میں راہنمائی سے نوازنے کے معنی یہ ہیں کہ تمام دینی معاملات میں علم و عمل کے اعتبار سے ہماری صحیح اور مکمل راہنمائی فرما، لہٰذا یہ دعا سب سے زیادہ جامع اور بندہ مومن کے لئے سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ بنابریں انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنی نماز کی ہر رکعت میں اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کیونکہ وہ اس کا ضرورت مند ہے۔ یہ صراط مستقیم نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کا راستہ ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے سرفراز فرمایا یہ ﴿الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ﴾ لوگوں کا راستہ نہیں جن پر غضب نازل ہوا، جنہوں نے حق کو پہچان کر بھی اسے ترک کردیا مثلاً یہود وغیرہ۔ اور نہ یہ ﴿الضَّالِّينَ ﴾ یعنی گمراہ لوگوں کا راستہ ہے جنہوں نے نصاریٰ کی مانند حق کو ترک کر کے جہالت اور گمراہی کو اختیار کیا۔ پس یہ سورت اپنے ایجاز و اختصار کے باوجود ایسے مضامین پر مشتمل ہے جو قرآن مجید کی کسی اور سورت میں نہیں پائے جاتے۔ سورۃ فاتحہ توحید کی اقسام ثلاثہ کو متضمن ہے۔ ١۔ توحید ربوبیت : اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے ماخوذ ہے۔ 2۔ توحید الوہیت : یعنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو عبادت کا مستحق سمجھنا۔ لفظ ” اللہ“ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ سے ماخوذ ہے۔ ٣۔ توحید اسماء و صفات : توحید اسماء و صفات سے مراد ہے کہ بغیر کسی تعطیل، تمثیل اور تشبیہ کے اللہ تعالیٰ کے لئے ان صفات کمال کا اثبات کرنا جن کو خود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت کیا ہے اور اس پر لفظ (الحمد) دلالت کرتا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ اثبات نبوت کو متضمن ہے کیونکہ سیدھے راستے کی طرف راہنمائی نبوت و رسالت کے بغیر ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ سے اعمال کی جزا و سزا ثابت ہوتی ہے نیز یہ جزا اور سزا عدل و انصاف سے ہوگی کیونکہ ” دین“ کے معنی ہیں عدل کے ساتھ بدلہ دینا۔ اور سورۃ فاتحہ تقدیر کے اثبات کو بھی متضمن ہے نیز اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ بندہ ہی درحقیقت فاعل ہے۔ قدر یہ اور جبر یہ کے نظریات کے برعکس، بلکہ ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ تمام اہل بدعت و ضلالت کی تردید کو متضمن ہے، کیونکہ صراط مستقیم سے مراد حق کی معرفت اور اس پر عمل پیرا ہونا ہے اور بدعتی اور گمراہ شخص ہمیشہ حق کا مخالف ہوتا ہے۔ ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾اس بات کو متضمن ہے کہ دین کو اللہ کے لئے خالص رکھا جائے، چاہے اس کا تعلق عبادات سے ہو یا استغانت سے۔ فالحمد للّٰہ رب العالمین