سورة النسآء - آیت 101

وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب تم حالت سفر میں ہو تو نماز (106) قصر کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کفار تم پر آ چڑھیں گے، بے شک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ دو آیات کریمہ سفر کے دوران نماز میں قصر کی رخصت اور نماز خوف کے لیے اصل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” جب چلو تم زمین میں“ یعنی سفر کے دوران آیت کریمہ کا ظاہر سفر کے دوران نماز میں قصر کی رخصت کا تقاضا کرتا ہے سفر خواہ کیسا ہی ہو، خواہ معصیت کا سفر ہی کیوں نہ ہوجیسا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ جمہور فقہاء یعنی ائمہ ثلاثہ اور دیگر اہل علم آیت کے معنی اور مناسبت کے اعتبار سے آیت کے عموم کی تخصیص کرتے ہوئے معصیت کے سفر کے دوران نماز میں قصر کی رخصت کو جائز قرار نہیں دیتے۔ کیونکہ رخصت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے سہولت ہے کہ جب وہ سفر کریں تو نماز میں قصر کرلیا کریں اور روزہ چھوڑ دیا کریں۔ یہ تخفیف گناہ کا سفر کرنے والے شخص کے حال سے مناسبت نہیں رکھتی۔ ﴿فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ ﴾” تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں“ یعنی تم پر کوئی حرج اور گناہ نہیں۔ یہ چیز قصر کے افضل ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ آیت کریمہ میں مذکورہ نفی حرج اس وہم کا ازالہ کرتی ہے جو بہت سے نفوس میں واقع ہوتا ہے۔ بلکہ یہ تو نماز قصر کے واجب ہونے کے بھی منافی نہیں جیسا کہ اس کی نظیر سورۃ بقرہ کی اس آیت میں گزر چکی ہے ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ ۖ ﴾(البقرہ :2؍ 158) ” صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔۔۔ آیت کے آخر تک“ اس مقام پر وہم کا ازالہ ظاہر ہے کیونکہ مسلمانوں کے ہاں نماز کا وجوب اس کی اس کامل صفت کے ساتھ متحقق ہے اور یہ وہم اکثر نفوس سے اس وقت تک زائل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس امر کا ذکر نہ کیا جائے جو اس کے منافی ہے۔ اتمام پر قصر کی افضلیت کو دو امور ثابت کرتے ہیں۔ اول : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے تمام سفروں کے دوران میں قصر کا التزام کرنا۔ ثانی: قصر، بندوں کے لیے وسعت، رخصت اور رحمت کا دروازہ ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی رخصتوں سے استفادہ کیا جائے۔ جس طرح وہ یہ بات ناپسند کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی کا کوئی کام کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ ﴾” نماز میں سے کچھ کم کر دو“ اور یہ نہیں فرمایا (أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ) ” نماز کو کم کر دو‘‘ اس میں دو فائدے ہیں۔ اول :۔ اگر یہ کہا ہوتا کہ ” نماز کو کم کردو“ تو قصر غیر منضبط اور غیر محدود ہوتی۔ اور بسا اوقات یہ بھی سمجھا جاسکتا تھا کہ اگر نماز کا بڑا حصہ کم کردیا جائے اور صرف ایک رکعت پڑھ لی جائے، تو کافی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے (مِنَ الصَّلَاةِ) کا لفظ استعمال فرمایا، تاکہ وہ اس امر پر دلالت کرے کہ قصر محدود اور منضبط ہے اور اس بارے میں اصل مرجع وہ نماز قصر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام کے فعل سے ثابت ہے۔ (ثانی): حرف جار (مِنْ) تبعیض کا فائدہ دیتا ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ صرف بعض فرض نمازوں میں قصر ہے تمام نمازوں میں جائز نہیں۔ کیونکہ فجر اور مغرب کی نماز میں قصر نہیں۔ صرف ان نمازوں میں قصر کر کے دو رکعت پڑھی جاتی ہیں جن میں چار رکعتیں فرض کی گئی ہیں۔ جب یہ بات متحقق ہوگئی کہ سفر میں نماز قصر ایک رخصت ہے تو معلوم ہونا چاہئے کہ مفسرین میں اس قید کے تعین کے بارے میں اختلاف ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں وارد ہوئی ہے۔ ﴿إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” اگر تم اس بات سے ڈرو کہ کافر تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے“ جس کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ نماز قصر اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ یہ دو امور ایک ساتھ موجود نہ ہوں سفر اور خوف۔ ان کے اختلاف کا حاصل یہ ہے کہ (أَن تَقْصُرُوا )سے مراد صرف عدد رکعات میں کمی ہے؟ یا عدد رکعات اور صفت نماز دونوں میں کمی ہے؟ اشکال صرف پہلی صورت میں ہے اور یہ اشکال امیر المومنین جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو لاحق ہوا تھا۔ حتیٰ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ” یا رسول اللہ ! ہم نماز میں قصر کیوں کرتے ہیں حالانکہ ہم مامون ہوتے ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا : ﴿إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾” اگر تمہیں کافروں کا خوف ہو کہ وہ تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا :” یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر صدقہ ہے پس تم اللہ تعالیٰ کے صدقہ کو قبول کرو۔“ (او کما قال علیہ السلام) [صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین و قصرھا، حدیث:1083 ] اس صورت میں یہ قید ان غالب حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عائد کی گئی تھی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام دوچار تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر سفر جہاد کے لیے ہوتے تھے۔ اس میں دوسرا فائدہ یہ ہے کہ قصر کی رخصت کی مشروعیت میں حکمت اور مصلحت بیان کی گئی ہے۔ اس آیت کریمہ میں وہ انتہائی مشقت بیان کی گئی ہے، جس کا قصر کی رخصت کے بارے میں تصور کیا جاسکتا ہے اور وہ ہے سفر اور خوف کا اجتماع اور اس سے یہ بات لازم نہیں کہ اکیلے سفر میں قصر نہ کی جائے جو کہ مشقت کا باعث ہے۔ رہی قصر کی دوسری صورت یعنی عدد رکعات اور نماز کی صفت میں قصر تو یہ قید اپنے اپنے باب کے مطابق ہوگی۔ یعنی انسان کو اگر سفر اور خوف دونوں کا سامنا ہو تو عدد اور صفت دونوں میں قصر کی رخصت ہے۔ اگر وہ بلا خوف کسی سفر پر ہے تو صرف عدد رکعات میں قصر ہے اور اگر صرف دشمن کا خوف لاحق ہے تو صرف وصف نماز میں قصر ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد آنے والی آیت کریمہ میں نماز خوف کی صفت بیان فرمائی ہے۔