وَمَن يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً ۚ وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اور جو شخص اللہ کی راہ میں ہجرت (105) کرتا ہے، وہ زمین میں بہت سی پناہ کی جگہیں اور کشادگی پاتا ہے، اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کی نیت سے نکلتا ہے، پھر اس کی موت آجاتی ہے، تو اس کا اجر اللہ کے نزدیک ثابت ہوجاتا ہے، اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا اور نہایت مہربان ہے
اس آیت کریمہ میں ہجرت کی ترغیب دی گئی ہے اور ان مصالح اور فوائد کا بیان ہے جو ہجرت میں پنہاں ہیں۔ اس سچی ہستی نے وعدہ کیا ہے کہ جو کوئی اس کی رضا کی خاطر اس کی راہ میں ہجرت کرتا ہے وہ زمین میں بہت سے راستے اور کشادگی پائے گا۔ پس یہ راستے دینی مصالح، زمین کی وسعت اور دنیاوی مصالح پر مشتمل ہیں۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہجرت، وصال کے بعد فراق، غنا کے بعد فقر، عزت کے بعد ذلت اور فراخی کے بعد تنگدستی میں پڑنے کا نام ہے۔ معاملہ دراصل یہ نہیں کیونکہ بندہ مومن جب تک کفار کے درمیان رہ رہا ہے اس کا دین انتہائی ناقص ہے، اس کی وہ عبادات بھی ناقص ہیں جن کا تعلق صرف اسی کی ذات سے ہے جیسے نماز، وغیرہ اور اس کی وہ عبادات بھی ناقص ہیں جن کا تعلق دوسروں سے ہے، مثلاً قولی و فعلی جہاد اور اس کے دیگر توابع، کیونکہ یہ اس کے بس کی بات نہیں اور وہ اپنے دین کے بارے میں ہمیشہ فتنے اور آزمائش میں مبتلا رہے گا۔ خاص طور پر جبکہ وہ مستضعفین (کمزوروں) میں شمار ہوتا ہو۔ پس جب وہ دارالکفر سے ہجرت کرجاتا ہے تو اقامت دین کی کوشش اور اللہ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرسکتا ہے۔ کیونکہ (االْمُرَاغَمَۃُ) ایک جامع نام ہے اور اس سے مراد ہر وہ قول و فعل ہے جس سے اللہ کے دشمنوں کے خلاف غیظ پیدا ہو۔ اسی طرح (مُرَاغَمَ) سے مراد رزق وغیرہ کی فراخی ہے اور یہ چیز اسی طرح واقع ہوئی جس طرح اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی۔ چونکہ صحابہ کرام نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی، اللہ کی رضا کے لیے اپنا گھربار، اپنا مال اور اپنی اولاد کو چھوڑ دیا اس لیے ہجرت کے ذریعے سے ان کے ایمان کی تکمیل ہوئی، انہیں ایمان کامل، جہاد عظیم اور اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت حاصل ہوئی۔ بنا بریں وہ بعد میں آنے والوں کے لیے امام بن گئے۔ اس ایمان کی تکمیل پر انہیں فتوحات اور غنائم حاصل ہوئیں اور وہ سب سے زیادہ بے نیاز ہوگئے۔ اسی طرح، قیامت تک ہر وہ شخص جو ان کی سیرت کو اختیار کرے گا اس کو بھی انہی انعامات سے نوازا جائے گا جن انعامات سے ان کو نوازا گیا تھا۔ پھر فرمایا :﴿وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ﴾ ” اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے۔“ یعنی جو شخص صرف اپنے رب کی رضا، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اللہ کے دین کی نصرت کی خاطر ہجرت کے لیے اپنے گھر سے نکلتا ہے اور اس کے سوا اس کا کوئی اور مقصد نہیں ﴿ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ ﴾ ” پھر اس کو موت آ پکڑے۔“ یعنی پھر قتل یا کسی اور سبب سے اسے موت آجاتی ہے ﴿فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّـهِ﴾” تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہوچکا۔“ یعنی اسے اس مہاجر کا اجر حاصل ہوگیا جسے اللہ تعالیٰ کی ضمانت سے اپنی منزل مقصود مل گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے عزم جازم کے ساتھ ہجرت کی نیت کی تھی اور اس پر عملدرآمد کرنا شروع کردیا تھا۔ اس پر، اور اس جیسے دوسرے لوگوں پر یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اگرچہ انہوں نے اپنے عمل کو مکمل نہیں کیا، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو کامل عمل عطا کردیا اور ہجرت وغیرہ کے معاملے میں ان سے جو کوتاہی ہوئی اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کو ان دوا سمائے حسنیٰ پر ختم کیا ہے ﴿وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾ ” اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ان تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے جس کا وہ ارتکاب کرتے ہیں خاص طور پر، وہ اہل ایمان جو توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ ﴿رَّحِيمًا ﴾ یعنی وہ تمام مخلوق پر رحم کرنے والا ہے، اس کی رحمت ہی انہیں وجود میں لائی، اس کی رحمت ہی نے انہیں عافیت عطا کی اور اس کی رحمت ہی نے انہیں مال، بیٹوں اور قوت وغیرہ سے نوازا۔ وہ اہل ایمان پر رحم کرنے والا ہے، کیونکہ اسی نے اہل ایمان کو ایمان کی توفیق عطا کی، انہیں ایسے علم سے نوازا۔ وہ اہل ایمان پر رحم کرنے والا ہے، کیونکہ اسی نے اہل ایمان کو ایمان کی توفیق عطا کی، انہیں ایسے علم سے نوازا جس سے ایقان حاصل ہوتا ہے۔ ان کے لیے سعادت اور فلاح کی راہیں آسان کردیں، جن کے ذریعے سے وہ بے انتہا فائدہ اٹھاتے ہیں وہ عنقریب اس کی رحمت اور فضل و کرم کے وہ نظارے دیکھیں گے جو کسی آنکھ نے دیکھے ہوں گے نہ کسی کان نے سنے ہوں گے اور نہ کسی بشر کے قلب سے ان کا گزر ہوا ہوگا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ہماری برائیوں کی وجہ سے اپنی بھلائیوں سے محروم نہ کرے۔