وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ
اور جب ان کو ناپ کریا تول کردیتے ہیں تو کم دیتے ہیں
﴿ وَاِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ﴾ اور جب لوگوں کو ان کا حق عطا کرتے ہیں جو کسی ناپ تول کی صورت میں ان کے ذمے ہوتا ہے ﴿ یُخْسِرُوْنَ﴾ تو اس میں کمی کرتے ہیں یا تو ناپ کے ناقص پیمانے اور تولنے کی ناقص ترازو کے ذریعے سے یا ناپ تول کے پیمانے کو پوری طرح نہ بھرتے ہوئے کمی کرتے ہیں یا اس کے علاوہ دیگر طریقوں سے کمی کرتے ہیں ۔ یہ لوگوں کے اموال کی چوری اور ان کے ساتھ بے انصافی ہے ۔ جب ان لوگوں کے لیے یہ وعید ہے جو ناپ تول کے ذریعے سے لوگوں کے اموال میں کمی کرتے ہیں تو وہ لوگ اس وعید کے ، ناپ تول میں کمی کرنے والوں سے زیادہ مستحق ہیں جو جبرا لوگوں سے مال چھینتے ہیں یا چوری کرتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ انسان جس طرح لوگوں سے اپنا حق وصول کرتا ہے اسی طرح اس پر فرض ہے کہ وہ اموال ومعاملات میں لوگوں کے حقوق ادا کرے۔ بلکہ اس کے عموم میں دلائل ومقالات بھی شامل ہیں ، کیونکہ جیسے آپس میں مناظرہ کرنے والوں کی عادت ہے کہ ان مٰیں سے ہر ایک اپنی دلیل بیان کرنے کا حریص ہوتا ہے ، اس پر واجب ہے کہ وہ اس دلیل کو بھی بیان کرے جو اس کے مخالف کے علم میں نہیں ہوتی، نیز وہ اپنے مخالف کے دلائل پر بھی اسی طرح غور کرے جس طرح وہ اپنے دلائل پر غور کرتا ہے ۔ اس مقام پر انسان کے انصاف اور اس کے تعصب وظلم ، اس کی تواضع اور تکبر، اس کی عقل اور سفاہت کی معرفت حاصل ہوتی ہے، ہم اللہ تعالیٰ سےہر قسم کی بھلائی کی توفیق کا سوال کرتے ہیں۔