عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا أَحْضَرَتْ
تب ہر شخص جان لے گا کہ وہ کیا عمل لایا ہے
﴿عَلِمَتْ نَفْسٌ﴾ ” تو ہر نفس جان لے گا“ نَفْسٌ کا لفظ عام ہے، کیونکہ اسے شرط کے سیاق میں (نکرہ ) لایا گیا ہے۔ ﴿مَّآ اَحْضَرَتْ﴾ یعنی وہ اعمال جو اس کے پاس موجود ہوں گے اور جو اس نے آگے بھیجے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا ﴾(الکھف :18؍49) ” اور انہوں نے جو عمل کیے ان کو وہ موجود پائیں گے۔ “ یہ اوصاف جن سے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کو موصوف کیا ہے ، ایسے اوصاف ہیں جن سے دل دہل جاتے ہیں، کرب میں شدت آجاتی ہے ،جسم کانپنے لگتا ہے ، خوف چھا جاتا ہے ، یہ اوصاف خرد مند لوگوں کو اس دن کے لیے تیاری کرنے پر آمادہ کرتے ہیں اور اس کام سے روکتے ہیں جو ملامت کاموجب ہے۔ اسی لیے سلف میں سے کسی کا قول ہے : جو کوئی قیامت کے دن کو اسی طرح دیکھنا چاہے، گویا وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے تو وہ سورۃ تکویر میں تدبر کرے۔