سورة النسآء - آیت 91

سَتَجِدُونَ آخَرِينَ يُرِيدُونَ أَن يَأْمَنُوكُمْ وَيَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا ۚ فَإِن لَّمْ يَعْتَزِلُوكُمْ وَيُلْقُوا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ وَيَكُفُّوا أَيْدِيَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ۚ وَأُولَٰئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

تم کچھ لوگوں کو پاؤ گے (98) جو چاہتے ہیں کہ تمہاری طرف سے بھی امن میں رہیں، اور اپنی قوم کی طرف سے بھی جب بھی انہیں فتنہ کی طرف لوٹایا جاتا ہے، اس میں اوندھے منہ پڑجاتے ہیں، پس اگر وہ لوگ تم سے دور نہ رہیں، اور تمہیں پیغامِ صلح نہ دیں، اور اپنے ہاتھ نہ روکے رکھیں، تو انہیں پکڑ لو، اور انہیں جہاں پاؤ قتل کرو، اور ایسے ہی لوگوں کے خلاف ہم نے تمہارے لئے کھلی حجت قائم کردی ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

تیسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو تمہارے احترام سے قطع نظر صرف اپنی بھلائی چاہتے ہیں اور یہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿سَتَجِدُونَ آخَرِينَ  ﴾” تم کچھ اور لوگوں کو ایسا بھی پاؤ گے“ یعنی ان منافقین میں سے ﴿ يُرِيدُونَ أَن يَأْمَنُوكُمْ﴾ ”وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں۔“ یعنی وہ تم سے ڈرتے ہوئے تمہارے ساتھ پرامن رہنا چاہتے ہیں۔ ﴿ وَيَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا ﴾ ” اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں (لیکن) جب کبھی فتنہ انگیزی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تو اوندھے منہ اس میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔“ یعنی وہ اپنے کفر اور نفاق پر قائم ہیں اور جب کبھی وہ کسی فتنہ سے دوچار ہوتے ہیں، یہ فتنہ انہیں اندھا کردیتا ہے اور وہ پہلی حالت پر لوٹ جاتے ہیں اور ان کا کفر و نفاق بڑھ جاتا ہے، یہ لوگ بھی اس صورت میں دوسرے گروہ کی مانند ہیں حالانکہ درحقیقت یہ اس گروہ کے مخالف ہیں، کیونکہ دوسرے گروہ نے مسلمانوں کے خلاف اپنے نفس پر خوف کی وجہ سے قتال ترک نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کے احترام کی بنا پر ترک کیا ہے۔ جب کہ اس گروہ نے تمہارے خلاف قتال، احترام کی وجہ سے نہیں بلکہ خوف کی وجہ سے ترک کیا ہے بلکہ اگر وہ اہل ایمان کے خلاف لڑنے کا کوئی موقع پائیں تو اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے تمہارے خلاف لڑیں، لہٰذا اگر یہ لوگ واضح طور پر اہل ایمان کے ساتھ لڑنے سے کنارہ کشی نہ کریں تو وہ گویا تمہارے خلاف جنگ کرتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَإِن لَّمْ يَعْتَزِلُوكُمْ وَيُلْقُوا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ ﴾” اگر وہ تم سے کنارہ کشی کریں نہ تمہاری طرف پیغام صلح بھیجیں۔“ یعنی اگر وہ تمہارے ساتھ امن اور صلح نہیں چاہتے ﴿وَيَكُفُّوا أَيْدِيَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ۚ وَأُولَـٰئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا﴾ ”اور اپنے ہاتھ نہ روک لیں تو انہیں پکڑو اور قتل کرو جہاں کہیں بھی پاؤ۔ یہی ہیں جن پر ہم نے تمہیں ظاہر حجت عنایت فرمائی ہے“ تب ہم نے تمہیں ان کے خلاف ایک واضح حجت عطا کردی ہے کیونکہ وہ تمہارے خلاف ظلم اور تعدی کا ارتکاب کرتے ہیں، صلح اور امن کے رویے کو ترک کر رہے ہیں۔ پس انہیں چاہئے کہ وہ صرف اپنے آپ کو ملامت کریں۔