أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنفَعَهُ الذِّكْرَىٰ
یا نصیحت کی بات سنتا تو وہ نصیحت اسے کام آتی
﴿اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی﴾ یا وہ کسی چیز سے نصیحت پکڑتا جو اسے فائدہ دیتی اور وہ اس نصیحت سے نفع حاصل کرتا؟ یہ بہت بڑا فائدہ ہے اور یہی چیز انبیاء ورسل کی بعثت، واعظین کے وعظ اور یاد دہانی کرانے والوں کی تذکیر کا مقصد ہے جو شخص اس چیز کا حاجت مند بن کر خود چل کرآیا ہے ، اس کی طرف آپ کو توجہ دینا زیادہ لائق اور واجب ہے۔ رہا آپ کا اس بے نیاز دولت مند کی ہدایت کے درپے ہونا اور اس سے تعرض کرنا جو بھلائی میں عدم رغبت کی بنا پر سوال کرتا ہے نہ فتوی طلب کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کا اس شخص کو چھوڑ دینا جو اس سے زیادہ اہم ہے آپ کے لیے مناسب نہیں، کیونکہ آپ پر اس کے پاکیزگی اختیار نہ کرنے کا کوئی گناہ نہیں ہے ۔اگر وہ پاک نہیں ہوتا تو آپ اس برے کام کا محاسبہ کرنے والے نہیں ہیں جس کا ارتکاب کرتا ہے ۔ یہ چیز ایک مشہور شرعی قاعدے پر دلالت کرتی ہے ،وہ قاعدہ یہ ہے کہ کسی امر معلوم کو کسی امر موہوم کی خاطر اور کسی مصلحت متحققہ کو کسی مصلحت موہومہ کی خاطر ترک نہ کیا جائے ، نیز مناسب یہ ہے کہ وہ طالب علم جو علم کا حاجت مند اور حصول علم کا حریص ہے اس پر دوسروں کی نسبت زیادہ توجہ دی جائے۔