مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا
جو شخص کوئی اچھی سفارش (92) کرتا ہے، تو اس کی نیکی کا ایک حصہ اسے بھی ملتا ہے، اور جو بری سفارش کرتا ہے، تو اس کے گناہ کا ایک حصہ اس کے نامہ اعمال میں بھی جاتا ہے، اور اللہ ہر چیز کی نگرانی کر رہا ہے
یہاں شفاعت سے مراد کسی معاملے میں معاونت ہے۔ جو کوئی کسی دوسرے کی بھلائی کے کسی کام میں سفارش کرتا ہے اور اس کام میں اس کی مدد کرتا ہے، مثلاً مظلوموں کے بارے میں ظالم کے پاس سفارش کرنا اسے اس کی کوشش اور عمل کے مطابق اس نیک سفارش سے حصہ نصیب ہوگا اور اصل کام کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی اور جو کوئی برائی کے کسی کام میں کسی کی مدد کرتا ہے تو اس کے تعاون اور مدد کے مطابق عذاب میں سے اس کو حصہ ملے گا۔ اس آیت کریمہ میں نیکی اور تقویٰ میں تعاون کے لیے بہت بڑی ترغیب ہے۔ اسی طرح گناہ اور زیادتی کے کاموں میں معاونت پر زجر و توبیخ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے متحقق کیا ہے ﴿وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا ﴾” اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا گواہ اور حفاظت کرنے والا ہے۔“ یعنی وہ ان اعمال کا حساب لے گا اور ہر شخص کو اس کے استحقاق کے مطابق جزا دے گا۔