إِنَّا أَنذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِيبًا يَوْمَ يَنظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا
بے شک ہم نے تم سب کو ایک قریب کے عذاب سے ڈرا (١١) دیا ہے، جس دن ہر آدمی اپنے اعمال کو دیکھے گا، جو اس نے آگے بھیج دیا تھا، اور کافر کہے گا، کاش میں مٹی ہوجاتا
﴿اِنَّآ اَنْذَرْنٰکُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا﴾ ”بلاشبہ ہم نے تمہیں عنقریب آنے والے عذاب سے ڈرایا ہے۔“ کیونکہ وہ عذاب قریب آگیا ہے اور جو چیز آرہی ہو وہ قریب ہی ہوتی ہے۔ ﴿یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ﴾ ” اس دن آدمی ان )اعمال( کو دیکھ لے گا جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے۔“ یعنی یہی وہ چیز ہے جو اسے ہم وفکر میں ڈالے گی اور وہ اس سے گھبرائے گا۔ پس اسے اس دنیا میں دیکھنا چاہیے کہ اس نے دائمی گھر کے لیے کیا آگے بھیجا ہے؟ جیسے اللہ نے فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰـهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰـهَ إِنَّ اللّٰـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾(الحشر:59؍18) ” اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو ، اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے ، اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ ہر اس عمل کی خبر رکھتا ہے جو تم کرتے ہو۔“ اگر وہ (اپنے اعمال میں) کوئی بھلائی پائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرے اور اگر بھلائی کے سوا کچھ اور پائے تو وہ صرف اپنے ہی نفس کو ملامت کرے، اسی لیے کفار شدت حسرت وندامت کی وجہ سے موت کی تمنا کریں گے ﴿وَیَقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰلَیْتَــنِیْ کُنْتُ تُرٰبًا﴾ ” اور کافر کہے گا ، کاش ! میں مٹی ہوتا۔“ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں کفر اور ہر قسم کے شرسے عافیت عطا کرے۔ بلاشبہ وہ بہت جواد اور نہایت کرم والا ہے۔