أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا
کیا وہ قرآن (89) میں غور نہیں کرتے ہیں، اور اگر یہ غیر اللہ کے پاس سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تدبر کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہاں تدبر سے مراد ہے کتاب اللہ کے معانی میں غور و فکر اس کے مبادی، نتائج و عواقب اور اس کے لوازم میں گہری نظر سے سوچنا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تدبر تمام علوم و معارف کی کنجی ہے۔ ہر بھلائی اسی کے ذریعے سے حاصل کی جاتی ہے اور تمام علوم کا استخراج اسی سے کیا جاتا ہے۔ کتاب اللہ ہی سے قلب میں ایمان کا اضافہ ہوتا ہے اور شجرہ ایمان جڑ پکڑتا ہے۔ کتاب اللہ ہی رب معبود کی معرفت عطا کرتی ہے، اس معرفت سے نوازتی ہے کہ رب معبود کی صفات کمال کیا ہیں اور وہ کون سی صفات نفس سے منزہ ہے۔ کتاب اللہ اس راستے کی معرفت عطا کرتی ہے جو رب معبود تک پہنچاتا ہے نیز اس راستے پر چلنے والے لوگوں کی معرفت سے نوازتی ہے اور ان نعمتوں کا ذکر کرتی ہے جو رب رحیم کی خدمت میں حاضر ہونے پر عطا ہوں گی۔ کتاب اللہ بندے کو اس کے دشمن کی معرفت عطا کرتی ہے، ایسا دشمن جو حقیقی دشمن ہے۔ ان راہوں کی نشاندہی کرتی ہے جو انسان کو عذاب کی منزل تک پہنچاتی ہیں۔ ان راہوں پر چلنے والے لوگوں کی معرفت عطا کرتی ہے، نیز آگاہ کرتی ہے کہ اسباب عقاب کے وجود پر ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ بندہ مومن کتاب اللہ میں جتنا زیادہ غور و فکر کرے گا اتنا ہی زیاہ اس کے علم و عمل اور بصیرت میں اضافہ ہوگا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ میں تدبر و تفکر کا حکم اور اس کی ترغیب دی ہے اور آگاہ فرمایا کہ قرآن عظیم کو نازل کرنے کا مقصد بھی یہی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴾ (ص :38؍29) ” یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف نازل کی جو بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں تدبر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت پکڑیں۔“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا﴾ (محمد :47؍24) ” کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں؟“ کتاب اللہ میں تدبر کا فائدہ یہ ہے کہ بندہ مومن اس کے ذریعے سے درجہ یقین تک پہنچ جاتا ہے اور اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے کیونکہ اسے صاف نظر آتا ہے کہ یہ کلام ایک دوسرے کی تصدیق اور موافقت کرتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر، احکام اور اخبار کا اعادہ کیا جاتا ہے، مگر ہر مقام پر وہ ایک دوسرے کی تصدیق اور موافقت کرتے ہیں ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کامل ہے اور ایک ایسی ہستی کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جس کے علم نے تمام امور کا احاطہ کر رکھا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا﴾ ” اگر یہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً وہ اس میں بہت اختلاف پاتے“ چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس لیے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔