وَيَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِندِكَ بَيَّتَ طَائِفَةٌ مِّنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي تَقُولُ ۖ وَاللَّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ ۖ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا
اور لوگ کہتے ہیں کہ ہم فرمانبردار (88)، پھر جب آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں، تو ان میں کا ایک گروہ اپنے کہے کے الٹا مشورہ کرتا ہے، اور اللہ ان کے خفیہ مشوروں کو لکھ رہا ہے، تو آپ ان سے اعراض کیجئے اور اللہ پر بھروسہ رکھئے اور اللہ بحیثیت کارساز کافی ہے
نیز یہ بھی لازم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ظاہر و باطن اور جلوت و خلوت میں ہو۔ رہا وہ شخص جو لوگوں کے سامنے اطاعت اور التزام کا اظہار کرتا ہے اور جب تنہا ہوتا ہے یا اپنے ہم مشرب ٹولے کے ساتھ ہوتا ہے تو اطاعت ترک کردیتا ہے اور ایسے کام کرتا ہے جو اطاعت کی ضد ہوتے ہیں تو ایسی اطاعت جس کا اس نے اظہار کیا ہے اس کے لیے نفع مند اور مفید نہیں ہے۔ اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَيَقُولُونَ طَاعَةٌ ﴾ ” وہ کہتے ہیں مان لیا۔“ یعنی جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں تو اطاعت کا اظہار کرتے ہیں ﴿فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِندِكَ﴾ ” جب وہ آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں“ یعنی تنہا ہوتے ہیں اور ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ کوئی ان کی اس حالت سے مطلع نہیں ہوتا۔ ﴿بَيَّتَ طَائِفَةٌ مِّنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي تَقُولُ﴾ ” مشورہ کرتے ہیں رات کو کچھ لوگ ان میں سے اس کے خلاف جو آپ کہتے ہیں۔“ تورات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے خلاف تدبیریں کرتے ہیں اور وہاں ان کے پاس نافرمانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿بَيَّتَ طَائِفَةٌ مِّنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي تَقُولُ﴾ میں اس امر کی دلیل ہے کہ وہ معاملہ جس کو انہوں نے دائمی و تیرہ بنایا ہوا تھا وہ عدم اطاعت کا رویہ تھا۔ کیونکہ (تَبْیْت) سے مراد رات کے وقت اس طرح معاملات کی تدبیر کرنا ہے کہ اس پر رائے کا استقرار ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل پر وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿وَاللَّـهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ ۖ﴾” اور اللہ لکھتا ہے جو وہ رات کو مشورہ کرتے ہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کی ان کارستانیوں کو محفوظ کر رہا ہے وہ عنقریب ان کو ان کارستانیوں کی پوری پوری جزا دے گا یہ ان کے لیے وعید ہے۔ ان کی ان کارستانیوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اعراض اور سختی کا حکم دیا ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا، اس کے دین کی نصرت اور اس کی شریعت کے نفاذ میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ﴿فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ وَكِيلًا ﴾ ” پس آپ ان سے منہ پھیر لیں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اللہ تعالیٰ کافی کار ساز ہے۔ “