فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَاءُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا
پھر یہ کیسی بات ہے کہ جب انہیں ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی مصیبت (70) لاحق ہوتی ہے، تو آپ کے پاس آکر اللہ کی قسم کھاتے ہیں، کہ ہم نے تو صرف بھلائی اور آپس میں ملانے کی نیت کی تھی
فرمایا : ﴿فَكَيْفَ ﴾ یعنی ان گمراہوں کا کیا حال ہوتا ہے ﴿إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ﴾ ” جب ان پر ان کے کرتوتوں کے باعث کوئی مصیبت آپڑتی ہے“ یعنی گناہ، معاصی اور طاغوت کی تحکیم بھی اس میں شامل ہے ﴿ثُمَّ جَاءُوكَ ﴾ ” پھر آپ کے پاس آتے ہیں۔“ یعنی جو کچھ ان سے صادر ہوا اس پر معذرت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں۔ ﴿يَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا ﴾ ” اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو صرف بھلائی اور میل ملاپ ہی کا تھا۔“ یعنی ہمارا مقصد تو صرف جھگڑے کے فریقین کے ساتھ بھلائی کرنا اور ان کے درمیان صلح کروانا ہے۔ حالانکہ وہ اس بارے میں سخت جھوٹے ہیں۔ بھلائی تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تحکیم میں ہے۔﴿وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴾(المائدہ :5؍ 50) ” جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اچھا فیصلہ کس کا ہے؟“