يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ
اے چادر (١) اوڑھنے والے
﴿الْمُزَّمِّلُ﴾ کا معنی بھی ﴿ الْمُدَّثِّرُ﴾ کی طرح کپڑوں میں لپٹنے والا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رسالت کے ذریعے سے اکرام بخشا اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کو آپ کی طرف بھیج کر وحی نازل کرنے کی ابتدا کی تو اس وقت آپ اس وصف سے موصوف ہوئے ۔ آپ نے ایک معاملہ دیکھا کہ اس جیسا معاملہ آپ نے کبھی نہیں دیکھا تھا اور اس پر رسولوں کے سوا کوئی بھی ثابت قدم نہیں رہ سکتا۔ آپ کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا: ” پڑھیے“ ! آپ نے فرمایا :”میں پڑھ نہیں سکتا“ جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو خوب بھینچا جس سے آپ کو تکلیف ہوئی، جبرائیل آپ کو بار بار پڑھنے کی مشق کرواتے رہے تو بالآ خر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ، یہ وحی وتنزیل کا پہلا موقع اور ایک نیا تجربہ تھا ، اس سے آپ پر گھبراہٹ طاری ہوگئی ، آپ اپنے گھروالوں کے پاس تشریف لائے تو آپ پر کپکی طاری تھی ۔ آپ نے فرمایا : ”مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثبات سے بہرہ ور کیا اور آپ پر پے درپے وحی نازل ہوئی حتیٰ کہ آپ اس مقام پر پہنچ گئے جہاں کوئی رسول نہیں پہنچ سکا۔ (سبحان اللہ تعالیٰ!) وحی کی ابتدا اور اس کی انتہا کے مابین کتنا بڑا تفاوت ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس وصف کے ساتھ مخاطب فرمایا جو آپ میں ابتدا کے وقت پایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں آپ کو ان عبادات کا حکم دیا جو آپ سے متعلق تھیں، پھر آپ کو اپنی قوم کی اذیت رسانی پر صبر کرنے کا حکم دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ اس کے حکم کو کھلم کھلا بیان کردیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کا اعلان کردیں ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو افضل ترین عبادت نماز کو مؤکد ترین اور بہترین اوقات پر ادا کرنے کا حکم دیا اور وہ ہے تہجد کی نماز۔