لِّيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا
تاکہ وہ جان لے کہ رسول نے اپنے رب کے پیغامات (17) پہنچا دئیے، اور اللہ نے ان تمام چیزوں کا احاطہ کر رکھا ہے جو ان رسولوں کے اردگرد ہیں، اور اس نے ہر چیز کو شمار کر رکھا ہے
﴿لِّيَعْلَمَ﴾ تاکہ اسے معلوم ہوجائے ﴿اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ﴾ ” کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغام پہنچا دیے ہیں ۔“ ان اسباب کے ذریعے سے جو ان کے لیے اس نے مہیا کیے ﴿وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ ﴾ ” اور جو کچھ ان کے پاس ہے اس نے اس کا احاطہ کیا ہے۔“ یعنی جو کچھ ان کے پاس ہے جسے وہ چھپاتے ہیں اور جسے وہ ظاہر کرتے ہیں ۔ ﴿وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا﴾ ” اور ہر چیز کو اس نے شمار کررکھا ہے۔“ فوائد: یہ سورۃ مبارکہ متعدد فوائد پر مشتمل ہے: ١۔ اس سورت سے جنات کا وجود ثابت ہوتا ہے ، نیز یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جنات امرونہی کے مکلف ہیں ، ان کو ان کے اعمال کی جزا دی جائے گی جیسا کہ یہ اس سورت میں صریح طور پر مذکور ہے۔ ٢۔ اس سورۃ کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح انسانوں کی طرف مبعوث کیے گئے تھے، اسی طرح جنات کی طرف بھی مبعوث تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف بھیجا تاکہ وہ قرآن کو غور سے سنیں جو آپ کی طرف وحی کیا جاتا ہے اور پھر اسے اپنی قوم تک پہنچائیں۔ ٣۔ اس سورہ مبارکہ سے جنات کی ذہانت اور ان کی معرفت حق کا اثبات ہوتا ہے اور جس چیز نے انہیں ایمان لانے پر آمادہ کیا وہ یہ ہے کہ ہدایت قرآن ان پر متحقق ہوگئی، نیز اپنے خطاب میں قرآن کے حسن ادب کی بنا پر (ایمان لانے پر آمادہ ہوئے) ۔ ٤۔ اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل عنایت تھی اور وہ قرآن اس کی حفاظت میں تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر تشریف لائے ۔ پس جب آپ کی نبوت کی بشارتیں شروع ہوئیں ، ستاروں کے ذریعے آسمان محفوظ ہوئے ، شیاطین اپنی اپنی جگہیں چھوڑ کر بھاگ گئے اور گھبرا کر اپنی گھاتوں سے نکل گئے ۔ اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اہل زمین پر اس قدر رحم فرمایا جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ ان کے رب نے ان کو رشد وہدایت سے بہرہ ور کرنے کا ارادہ کیا ، پس اس نے ارادہ فرمایا کہ اپنے دین وشریعت اور اپنی معرفت کو زمین پر ظاہر کرے جس سے دلوں کو بہجت وسرور حاصل ہو، خرد مند لوگ خوش ہوں ، شعائر اسلام ظاہر ہوں اور اہل اصنام اور اہل اوثان کا قلع قمع ہو۔ ٥۔ اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ جنات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سے قرآن ) کو سننے اور آپ کے پاس اکٹھے ہونے کی شدید خواہش تھی۔ ٦۔ یہ سورۃ کریمہ توحید کے حکم اور شرک کی ممانعت پر مشتمل ہے ، نیز اس میں مخلوق کی حالت بیان کی گئی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ذرہ بھر عبادت کا مستحق نہیں کیونکہ جب رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو مخلوق میں افضل اور کامل ترین ہستی ہیں ، کسی کو نفع اور نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتے بلکہ خود اپنی ذات کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے تو معلوم ہوا کہ اسی طرح تمام مخلوق بھی کسی کو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتی ، پس جس مخلوق کا یہ وصف ہو اس کو معبود بنانا خطا اور ظلم ہے۔ ٧۔ اس سورہ مبارکہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ علوم غیب کا علم رکھنے میں اللہ تعالیٰ منفرد ہے مخلوق میں سے کوئی ہستی غیب کا علم نہیں جانتی، سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ راضی ہوا اور کسی چیز کا علم عطا کرنے کے لیے اسے مختص کرے۔