وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ ۖ فَمَن يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَّصَدًا
اور یہ کہ ہم پہلے آسمان کی کئی جگہوں میں سننے کے لئے کان لگا کر بیٹھتے تھے، تو اب جو کوئی کان لگائے گا وہ اپنے لئے ایک انگارے کو گھات لگائے ہوئے پائے گا
﴿وَّاَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ﴾ ” اس سے پہلے ہم سن گن لینے کے لیے آسمانوں کے ٹھکانوں پر بیٹھا کرتے تھے“ ہم اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق آسمان کی خبریں حاصل کرلیتے تھے ۔ ﴿فَمَنْ یَّسْتَمِعِ الْاٰنَ یَجِدْ لَہٗ شِہَابًا رَّصَدًا﴾ اب اگر کوئی سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے تو شہاب ثاقب کو گھات میں لگے ہوئے پاتا ہے جو اس کو تلف کرنے اور جلا ڈالنے کے لیے تیار ہوتا ہے، یعنی یہ معاملہ بہت عظیم اور اس کی خبر بہت بڑی ہے، انہیں قطعی طور پر یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر ایک بڑا واقعہ وقوع پذیر کرنے کا ارادہ فرمایا ہے۔ اس لیے انہوں نے کہا: یعنی خیر یا شر میں سے ایک لازمی امر ہے کیونکہ انھوں نے دیکھ لیا کہ ان پر معاملہ بدل چکا ہے جو ان کو اچھا نہ لگا۔ پس انہوں نے اپنی فطانت سے پہچان لیا کہ کوئی معاملہ ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور زمین پر وقوع لانا چاہتا ہے ۔ اس آیت کریمہ میں ان کے ادب کا بیان ہے کیونکہ انہوں نے خیر کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کی اور ادب کی بنا پر شر کے فاعل کو حذف کردیا۔