فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْ
جس شخص کو اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ (٨) میں دیا جائے گا وہ (بڑھ کر) کہے گا، یہ لو، میرا نامہ اعمال پڑھو
یہی لوگ اہل سعادت ہوں گے ان کو ان کے اعمال نامے، جن میں ان کے نیک اعمال درج ہوں گے، ان کے امتیاز، ان کی شان اور قدر بلند کرنے کے لیے، ان کے دائیں ہاتھوں میں دیے جائیں گے۔ اس وقت ان میں سے کوئی فرحت وسرور اور اس خواہش کے ساتھ کہ مخلوق پر ظاہر ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کس قدر اکرام وتکریم سے سرفراز کیا ہے ،تو پکار اٹھے گا:،﴿ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْ ﴾۔ یعنی یہ لو میری کتاب اور اسے پڑھو، یہ کتاب جنتوں، اکرام وتکریم، گناہوں کی مغفرت اور عیوب کو ڈھانپنے کی بشارت دیتی ہے اور جس چیز نے مجھے اس مقام پر پہنچایاوہ قیامت اور حساب کتاب پر ایمان ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے مجھے نوازا اور ایسے اعمال کے ذریعے سے قیامت کے دن کے لیے تیاری کی توفیق دی، جو امکان اور استطاعت میں ہیں، اسی لیے فرمایا: ﴿ إِنِّي ظَنَنتُ أَنِّي مُلَاقٍ حِسَابِيَهْ ﴾ ” مجھے یقین تھا کہ مجھے میرا حساب ضرور ملے گا۔ “ یہاں )ظَنّ( یقین کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔