سورة النسآء - آیت 43

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے ایمان والو ! جب تم نشہ کی حالت (50) میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ تم (نماز میں) جو کہتے ہو اسے سمجھنے لگو، اور نہ حالت جنابت (51) میں (نماز پڑھو) یہاں تک کہ غسل کرلو، سوائے ان کے جو (مسجد سے) گذرنا چاہتے ہوں، اور اگر تم بیمار (52) ہو، یا حالت سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کر کے آئے، یا تم نے بیویوں کے ساتھ مباشرت کی ہو، اور پانی نہ ملے، تو پاک مٹی سے تیمم کرلو، (وہ اس طرح کہ) اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو، بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مغفرت کرنے والا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے روک دیا ہے جب تک کہ انہیں معلوم نہ ہوجائے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس ممانعت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ نشے کی حالت میں نماز کی جگہوں یعنی مساجد وغیرہ کے بھی قریب نہ جائیں کیونکہ نشے کی حالت میں مسجد میں داخل ہونا ممکن نہیں۔ اس ممانعت میں نفس نماز بھی شامل ہے نشے والے شخص کی عقل کے مختلف ہونے اور یہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اس کی نماز اور دیگر عبادات جائز نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے کے لیے اس چیز کو شرط بنایا کہ نشے والا شخص جو کچھ کہہ رہا ہوا سے اس کا علم ہو۔ یہ آیت کریمہ تحریم خمر والی آیت کے ذریعے سے منسوخ ہوگئی۔ اسلام کے ابتدائی ایام میں شراب حرام نہ تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں شراب کی حرمت کی طرف اشارہ فرمایا : ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ﴾(البقرہ : 2؍219) ” تم سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دو کہ ان میں بہت بڑا گناہ ہے اور ان میں لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں البتہ ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے نماز کے اوقات میں شراب پینے سے منع کردیا۔ جیسا کہ اس آیت میں مذکور ہے۔ اس کے بعد (تیسرے مرحلے میں) اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام اوقات میں شراب کو علی الاطلاق حرام قرار دیا فرمایا : ﴿ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ (المائدہ :5؍90) ” بے شک شراب، جوا، بت اور پانسے سب شیطان کے ناپاک کام ہیں اس لیے ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ “ نماز کے اوقات میں تو شراب کی حرمت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ان اوقات میں نماز کے مقصد کے حصول کے بعد، جو کہ نماز کی روح اور لب لباب ہے اور وہ ہے خشوع اور حضور قلب۔ شراب بڑے مفاسد کو متضمن ہے۔ شراب قلب کو بھی مدہوش کردیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے روکتی ہے۔ آیت کریمہ کے معنی سے یہ بات بھی اخذ کی جاتی ہے کہ سخت اونگھ کی حالت میں جب انسان کو یہ عقل و شعور نہ رہے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ بلکہ اس آیت کریمہ میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جب کوئی شخص نماز پڑھنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ ہر اس شغل کو منقطع کر دے جو نماز کے اندر اس کی توجہ کو مشغول رکھتا ہو مثلاً بول و براز کی سخت حاجت اور کھانے کی سخت خواہش وغیرہ۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے۔ ﴿وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ﴾” اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے قریب نہ ہوجاؤ) ہاں اگر عبور کرنے والے ہو راستے کو“ یعنی اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ سوائے اس حالت میں کہ تم مسجد میں سے گزر رہے ہو اور تم بغیر رکے گزر جاؤ ﴿حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا﴾ ” حتی کہ تم غسل کرلو۔“ یہ جنبی کے لیے نماز کے قریب جانے سے ممانعت کی حد اور انتہا ہے۔ پس جنبی کے لیے مسجد میں سے صرف گزرنا جائز ہے۔ ﴿وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا﴾” اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تمیم کرلو“ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے مریض کے لیے تمیم کو پانی کی موجودگی اور عدم موجودگی دونوں حالتوں میں علی الاطلاق جائز قرار دیا ہے اور اس اباحت کی علت ایسا مرض ہے جس میں پانی کا استعمال سخت تکلیف دہ ہو۔ اسی طرح سفر میں بھی تیمم کو مباح قرار دیا کیونکہ سفر میں پانی کے عدم وجود کا امکان ہوسکتا ہے، اس لیے جب مسافر کے پاس پینے اور دیگر ضروریات سے زائد پانی نہ ہو تو اس کے لیے تیمم جائز ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص بول و برازیا عورتوں کے لمس کی وجہ سے وضو توڑ بیٹھے خواہ وہ سفر میں ہو یا حضر میں، اگر پانی موجود نہ ہو تو اس کے لیے تمیم جائز ہے۔ جیسا کہ آیت کریمہ کا عموم دلالت کرتا ہے۔ حاصل بحث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو حالتوں میں تمیم مباح فرمایا ہے۔ (١) سفر و حضر میں علی الاطلاق پانی کی عدم موجودگی کی صورت میں۔ (٢) کسی مرض میں پانی کے استعمال میں مشقت کی صورت میں۔ مفسرین میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد (أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ) کا معنی بیان کرنے میں اختلاف ہے کہ آیا لمس سے مراد جماع ہے۔ تب یہ آیت کریمہ جنبی کے لیے تمیم کے جواز میں نص ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں یا اس سے مراد صرف ہاتھوں سے چھوٹا ہے، البتہ یہ چھونا اس قید سے مقید ہے کہ جب چھونے سے مذی کے خارج ہونے کا امکان ہو۔ یہ چھونا شہوت کے ساتھ ہوگا اور تب یہ آیت لمس سے وضو کے ٹوٹنے پر نص ہے۔ فقہاء ﴿فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً﴾ سے استدلال کرتے ہیں کہ نماز کا وقت داخل ہونے پر پانی کی تلاش فرض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس شخص کے لیے (لَمْ یَجِدْ) ” اس نے نہ پایا“ کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا جس نے تلاش نہ کیا ہو۔ بلکہ یہ لفظ استعمال ہی تلاش کے بعد کیا جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے فقہاء نے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ اگر پانی کسی پاک چیز کے اختلاط سے متغیر ہوجائے تو اس سے وضو وغیرہ جائز ہے بلکہ اس کے ذریعہ سے طہارت حاصل کرنا متعین ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً﴾ میں داخل ہے اور متغیر پانی بھی تو پانی ہی ہے اور اس میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ غیر مطلق پانی ہے اور یہ محل نظر ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس عظیم حکم کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو نوازا ہے اور وہ ہے تمیم کی مشروعیت۔ تمیم کی مشروعیت پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔ وللہ الحمد تمیم پاک مٹی سے کیا جاتا ہے ﴿صَعِيدًا ﴾ سطح زمین کی پاک مٹی کو کہتے ہیں خواہ اس میں غبار ہو یا نہ ہو۔ اس میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ ” صعید“ ہر غبار والی چیز کو کہا جائے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ مائدہ میں وضو والی آیت میں فرمایا ہے ﴿ فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ﴾(المائدہ :5؍6) ’’پس اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کرلو“ اور جس کا غبار نہ ہو تو اس سے مسح نہیں کیا جاتا۔ فرمایا ﴿ فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم﴾ ” اور (مٹی) سے اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرلو“ جیسا کہ سورۃ مائدہ میں زیادہ واضح ہے۔ آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے کہ تیمم کے اندر مسح کا محل یہ ہے، تمام چہرہ اور دونوں ہاتھ کلائی تک جیسا کہ اس پر احادیث صحیحہ دلت کرتی ہیں اور اس میں مستحب یہ ہے کہ صرف ایک ہی ضرب سے تمیم کیا جائے۔ جیسا کہ اس پر احادیث صحیحہ دلالت کرتی ہیں اور اس میں مستحب یہ ہے کہ صرف ایک ہی ضرب سے تیمم کیا جائے۔ جیسا کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے۔ جنبی کےتیمم میں بھی صرف چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا جائے گا، جیسے کسی دیگر شخص کے تیمم میں ہے۔ فائدہ :۔ معلوم ہونا چاہئے کہ طب کا دار و مدار تین قواعد پر ہے۔ (١) ضرر رساں اشیاء سے حفظان صحت۔ (٢) موذی امراض سے نجات حاصل کرنا۔ (٣) ان امراض سے بچاؤ۔ رہا مرض سے بچاؤ اور حفظان صحت تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھانے پینے اور عدم اسراف کا حکم دیا ہے۔ مسافر اور مریض کی صحت کی حفاظت کی خاطر رمضان میں روزہ چھوڑنا اور اس مقصد کے لیے ایسی چیزیں اعتدال کے ساتھ استعمال کرنا مباح ہے جو بدن کی صحت کے لیے درست اور مریض کو ضرر سے بچانے کیلیے ضروری ہیں۔ رہا بیماری کی تکلیف سے نجات حاصل کرنا تو اللہ تعالیٰ نے سر میں تکلیف محسوس کرنے والے محرم شخص کے لیے سرمنڈوانا مباح قرار دیا ہے تاکہ وہ سر میں جمع شدہ میل کچیل اور گندگی سے نجات حاصل کرسکے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان چیزوں مثلاً بول و براز، قے، منی اور خون وغیرہ سے فارغ ہونا زیادہ اولیٰ ہے۔ ان مذکورہ امور کی طرف علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے توجہ دلائی ہے۔ آیت کریمہ چہرے اور ہاتھوں کے مسح کے وجوب کے عموم پر دلالت کرتی ہے نیز یہ آیت اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ خواہ وقت تنگ نہ ہو تمیم کرناجائز ہے نیز یہ آیت کریمہ اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ وجوب کے سبب کے موجود ہونے کے بعد ہی پانی کی تلاش کے لیے کہا جائے گا۔ واللہ اعلم۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد پر آیت کریمہ کا اختتام کیا ہے۔﴿ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا ﴾” بے شک اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا نہایت بخشنے والا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے احکامات میں انتہائی آسانیاں پیدا فرما کر اپنے مومن بندوں کے ساتھ بہت زیادہ عفو اور مغفرت کا معاملہ کرتا ہے۔ تاکہ بندے پر اس کے احکام کی تعمیل شاق نہ گزرے اور اسے ان کی تعمیل میں کوئی حرج محسوس نہ ہو۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عفو اور اس کی مغفرت ہے کہ اس نے پانی کے عدم استعمال کے عذر کے موقع پر، مٹی کے ذریعے سے طہارت کو مشروع فرما کر اس امت پر رحم فرمایا اور یہ بھی اس کا عفو اور اس کی مغفرت ہے کہ اس نے گناہگاروں کے لیے توبہ اور انابت کا دروازہ کھولا اور انہیں اس دروازے کی طرف بلایا اور ان کے گناہ بخش دینے کا وعدہ فرمایا، نیز یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کا عفو ہے کہ اگر بندہ مومن زمین بھر گناہوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہو اور اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اسے زمین بھر مغفرت سے نوازے گا۔