عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ
بدمزاج اکھڑا ہے، ان سب عیوب کے ساتھ بداصل ہے
﴿ عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ یعنی درشت خو، بدخلق اور سخت طبیعت رکھنے والا جو حق کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتا ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ ﴿ زَنِيمٍ ﴾ ” بدذات ہے“ یعنی مجہول النسب جس کی کوئی اصل ہے نہ ایسا مادہ کہ جس سے کوئی بھلائی منتج ہوتی ہے بلکہ اس کے اخلاق بدترین اخلاق ہیں۔ اس سے فلاح کی امید نہیں اور اس میں شر کی علامت ہے جس سے وہ پہچانا جاتا ہے۔ ان تمام آیات کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص کی اطاعت سے روکا ہے جو نہایت کثرت سے قسمیں کھانے والا، سخت جھوٹا، خسیس النفس، نہایت بداخلاق، خاص طور پر وہ ایسے برے اخلاق کا مالک ہے جو خود پسند، مخلوق اور حق کے مقابلے اور حق کے مقابلے میں تکبر و استکبار، غیبت، چغلی اور طعنہ زنی کے ذریعے سے لوگوں سے حقارت کا رویہ رکھنے اور گناہوں کی کثرت کے متضمن ہیں۔ یہ آیات کریمہ۔۔ اگرچہ بعض مشرکین کے بارے میں نازل ہوئیں، مثلا : ولید بن مغیرہ وغیرہ کیونکہ اس کے بارے میں فرمایا: ﴿ أَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴾ کیونکہ اپنے مال اور اولاد کی وجہ سے اس نے سرکشی اختیار کی، حق کے مقابلے میں تکبر واستکبار کا مظاہرہ کیا، جب حق اس کے پاس آیا تو اس نے اسے ٹھکرا دیا اور اسے پہلوں کے قصے کہانیاں قرار دیا جن میں سچ اور جھوٹ دونوں ممکن ہیں۔۔۔ لیکن یہ آیات کریمہ ہر اس شخص کے بارے میں عام ہیں جو اس وصف سے متصف ہو کیونکہ قرآن کریم تمام مخلوق کی ہدایت کے لیے نازل ہوا اور اس میں اولین وآخرین سب داخل ہیں۔ بسا اوقات بعض آیات کسی خاص سبب یاکسی خاص شخص کے بارے میں نازل ہوتی ہیں تاکہ ان سے عام قاعدہ واضح ہوجائے اور عام قضیوں میں داخل جزئیات کی مثالوں کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو وعید سنائی ہے جس سے یہ سب کچھ واقع ہوا جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ عذاب میں اس کی ناک پر داغ لگائے گا اور اسے ظاہری عذاب میں مبتلا کرے گا ۔ اس کے چہرے پر داغ اور علامت لگی ہوگی جہاں داغ کا لگایا جانا سب سے زیادہ شاق گزرتا ہے۔