قُلْ هُوَ الَّذِي أَنشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۖ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ
اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ اسی نے تمہیں پیدا (14) کیا ہے، اور اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے ہیں، تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو
اللہ تعالیٰ یہ حقیقت بیان کرتے ہوئے کہ وہی اکیلا معبود ہے، اپنے بندوں کو اپنے شکر کی طرف بلاتے ہوئے اور عبادت میں اپنے متفرد ہونے کی طرف دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے :﴿ قُلْ هُوَ الَّذِي أَنشَأَكُمْ﴾ یعنی وہی ہے جو کسی معاون اور مددگار کے بغیر تمہیں عدم سے وجود میں لایا، جب اس نے تمہیں پیدا کیا تو کانوں، آنکھوں اور دلوں کے ساتھ تمہارے وجود کی تکمیل کی جو بدن کے نافع ترین اور کامل ترین جسمانی اعضا ہیں ۔مگر ان نعمتوں کے باوجود ﴿ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ﴾ ” تم کم ہی اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کرتے ہو“ تم میں شکر گزار لوگ اور شکر گزاری بہت کم ہے۔ ﴿ قُلْ هُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الْأَرْضِ﴾ ”کہہ دیجئے کہ وہی ہے جس نے تم کو زمین میں پھیلایا۔“ یعنی اس نے تمھیں زمین کے چاروں سمت پھیلایا اور اس کے کناروں تک تمہیں آباد کیا، تمہیں امر ونہی کا مکلف کیا، تمہیں نعمتوں سے سرفراز فرمایا جن سے تم فائدہ اٹھاتے ہو،پھر اس کے بعد قیامت کے دن وہ تمہیں اکٹھا کرے گا۔مگر یہ معاندین حق، جزا وسزا کے اس وعدے کا انکار کرتے ہیں ﴿ وَيَقُولُونَ ﴾ اور تکذیب کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ مَتَىٰ هـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾۔ ”اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟“ انہوں نے انبیاء کی صداقت کی علامت یہ رکھی کہ انہیں قیامت کے دن کی آمد کے وقت کے بارے میں آگاہ کریں، جبکہ یہ ظلم اور عناد ہے۔ پس اس کا علم تو اللہ کے پاس ہے مخلوق میں سے کسی کے پاس نہیں اور نہ اس خبر اور اس کے وقوع کے وقت کی خبر میں کوئی تلازم ہی ہے کیونکہ صداقت اپنے دلائل سے پہچانی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی صحت پر دلائل وبراہین قائم کردیے ہیں ،اس شخص کے لیے ادنی ٰسا شک نہیں رہتا جو توجہ کے ساتھ سنتا ہے۔