سورة الملك - آیت 5

وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے سجا دیا (٣) ہے، اور ان (چراغوں) کو شیاطین کے مارنے کے لئے بنایا ہے، اور ہم نے ان کے لئے بھڑکتی آگ کا عذاب تیار کررکھا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یعنی ہم نے جمال بخشا ﴿ السَّمَاءَ الدُّنْيَا﴾ ” دنیا کے آسمان کو“ جسے تم دیکھ رہے ہو اور جو تمہارے قریب اور متصل ہے ۔﴿ بِمَصَابِيحَ﴾، ”چراغوں کے ساتھ“ اس سے مراد مختلف اقسام کی روشنیاں رکھنے والے ستارے ہیں کیونکہ اگر آسمان میں ستارے نہ ہوتے تو یہ ایک تاریک چھت ہوتی جس میں کوئی حسن وجمال نہ ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو آسمان کی زینت، حسن وجمال اور راہ نما بنایا جن کے ذریعے سے بحروبر میں راہ نمائی حاصل کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر کہ اس نے آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین کیا، اس امر کے منافی نہیں کہ بہت سے ستارے ساتوں آسمانوں کے اوپر ہوں کیونکہ آسمان شفاف ہوتے ہیں اور اگر آسمان دنیا پر ستارے نہ بھی ہوں تو ساتوں آسمانوں کے ستاروں کے ذریعے سے آسمان دنیا کو زینت حاصل ہوسکتی ہے۔ ﴿ وَجَعَلْنَاهَا﴾ اور بنایا ہم نے چراغوں کو ﴿ رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ﴾ ”شیطانوں کو مارنے کا آلہ“ جو آسمانوں سے خبر چوری کرنا چاہتے ہیں، پس یہ شہاب ،جنہیں ستاروں سے شیاطین پر پھینکا جاتا ہے، انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا کے اندر شیاطین کے لیے تیار کررکھا ہے ۔﴿ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ﴾ اور آخرت میں ان کے لیے تیار کیا ہے ﴿ عَذَابَ السَّعِيرِ﴾ ” بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب“ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی اور اس کے بندوں کو گمراہ کیا، اس لیے ان کی پیروی کرنے والے کفار انہی کی مانند ہیں، ان کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے جہنم کا عذاب تیار کررکھا ہے، اس لیے فرمایا :﴿ وَلِلَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ﴾” اور جن لوگوں نے اپنے رب کا انکار کیا، ان کے لیے جہنم کا عذاب ہےاور برا ٹھکانا ہے۔“ وہ ایسا ٹھکانہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کو بے رسوا کیا جائے گا۔ ﴿ إِذَا أُلْقُوا فِيهَا ﴾ جب ذلت اور رسوائی کے ساتھ ان کو جہنم کے اندر پھینک دیا جائے گا ﴿ سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا ﴾ تو وہ جہنم کی بہت بلند اور انتہائی کریہہ آواز سنیں گے ﴿ وَهِيَ تَفُورُ ﴾ اور حالت یہ ہوگی کہ جہنم جوش ماررہی ہوگی۔ ﴿ تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ﴾ ” گویا مارے جوش کے پھٹ پڑے گی۔“ یعنی مجتمع ہونے کے باوجود، یوں لگتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائے گی اور کفار پر مارے غیظ وغضب کے پھٹ کر ٹکڑے ہوجائے گی۔“ تم سمجھ سکتے ہو کہ ان کو جہنم میں ڈالاجائے گا تو جہنم ان کے ساتھ کیا کرے گی؟ جہنم کا داروغہ اہل جہنم کو جو زجر وتوبیخ کرے گا، اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ﴾ ”جب اس میں ان کی کوئی جماعت ڈالی جائے گی تو دوزخ کے داروغے ان سے پوچھیں گے، کیا تمہارے پاس کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا تھا؟“ یعنی تمہارے اس حال اور تمہارے جہنم کے مستحق ہونے سے یوں لگتا ہے گویا کہ تمہیں اس کے بارے میں آگاہ ہی نہیں کیا گیا اور متنبہ کرنے والوں نے تمہیں کبھی اس سے متنبہ ہی نہیں کیا ۔﴿ قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللّٰـهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ ﴾” وہ کہیں گے، کیوں نہیں! ضرور ہمارے پاس ڈرانے والا آیا تھا لیکن ہم نے اس کو جھٹلادیا اور کہا کہ اللہ نے توکوئی چیز نازل ہی نہیں کی، تم تو بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔“ پس انہوں نے نبی کی تکذیب خاص اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہر چیز کی تکذیب عام کو جمع کردیا اور انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے متنبہ کرنے والے رسولوں کو علی الاعلان گمراہ کہا ، حالانکہ وہی تو راہ دکھانے والے اور سیدھی راہ پر ہیں پھر انہوں نے مجرو گمراہی کے فتوے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی ”گمراہی “ کو ”بہت بڑی گمراہی “قرار دیا ،تب کون ساعناد، تکبر اور ظلم اس کے مشابہ ہوسکتا ہے؟ ﴿ وَقَالُوا﴾ رشد وہدایت کے اہل نہ ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿ لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾، ” اگر ہم سنتے یا سمجھتے ہوتے، تو دوزخیوں میں نہ ہوتے۔“ پس وہ اپنی ذات سے ہدایت کے تمام راستوں کی نفی کریں گے اور وہ ہیں، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ اور رسول کی لائی ہوئی کتاب کو سننا اور عقل جو صاحب عقل کو فائدہ دیتی ہے ،جو اسے حقائق اشیا، بھلائی کو ترجیح دینے اور ہراس چیز سے اجتناب کرنے پر ٹھہراتی ہے جس کا انجام قابل مذمت ہو۔ مگر ان کے پاس تو سماعت ہے نہ عقل۔ ان کا یہ رویہ اہل یقین وعرفان اور ارباب صدق و ایمان کے رویے کے برعکس ہے کیونکہ انہوں نے سمعی دلائل سے اپنے ایمان کی تائید کی اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کرآئے انہوں نے اسے حصول علم، معرفت اور عمل کے لیے سنا ،نیز انہوں نے عقلی دلائل کے ذریعے سے گمراہی میں سے ہدایت، قبیح میں سے حسین اور شر میں سے خیر کی معرفت حاصل کی، وہ اپنے ایمان میں منقول ومعقول کی اقتدا کے مطابق تھے، جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا تھا ۔ پاک ہے وہ ذات جو بندوں میں سے جسے چاہتی ہے اپنے فضل کے لیے مختص کرتی ہے اور جسے چاہتی ہے اپنے احسان سے بہر ہ مند کرتی ہے اور جو بھلائی کے قابل نہیں ہوتا اسے تنہا چھوڑ دیتی ہے۔