وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور (وہ مال) ان لوگوں کے لئے ہے، جو مہاجرین مکہ کی آمد سے پہلے ہی مدینہ میں مقیم (٧) تھے اور ایمان لا چکے تھے، وہ لوگ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں، اور ان مہاجرین کو جو مال غنیمت دیا گیا ہے، اس کے لئے وہ اپنے دلوں میں تنگی اور حسد نہیں محسوس کرتے ہیں۔ اور انہیں اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ وہ خود تنگی میں ہوں، اور جو لوگ اپنے نفس کی تنگی اور بخل سے بچا لئے جائیں وہی کامیاب ہونے والے ہیں
پس دین کی مدد کرنے والے انصار کے پاس پناہ لیتے رہے ،یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا ،اس نے طاقت پکڑ لی اور اس میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا گیا حتی کہ مسلمانوں نے علم و ایمان اور قرآن کے ذریعے سے دلوں کو اور شمشیر وسناں کے ذریعے سے شہروں کو فتح کرلیا جن کے جملہ اوصاف جمیلہ یہ ہیں: ﴿یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیْہِمْ﴾ ”وہ اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔“ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہیں، اس کے احباب سے محبت کرتے ہیں اور ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو اس کے دین کی مدد کرتے ہیں۔ ﴿ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا﴾ ”اور وہ اپنے دلوں میں اس( مال )کی کوئی حاجت نہیں پاتے جو ان (مہاجرین)کو دیا جائے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مہاجرین کو جو کچھ عطا کیا ہے اور ان کو جن فضائل ومناقب سے مختص کیا، جن کے وہ اہل ہیں ،وہ ان پر حسد نہیں کرتے۔ یہ آیت کریمہ انکے سینے کی سلامتی ،ان میں بغض، کینہ اور حسد کے عدم وجود پر دلالت کرتی ہے ،نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ مہاجرین، انصار سے افضل ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذکر کو مقدم رکھا ہے، نیز آگاہ فرمایا کہ مہاجرین کو جو کچھ عطا کیا گیا انصار اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی حسد محسوس نہیں کرتے ۔یہ آیت کریمہ یہ بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ نے مہاجرین کو وہ فضائل عطا کیے جو انصار اور دیگر لوگوں کو عطا نہیں کیے کیونکہ انہوں نے نصرت دین اور ہجرت کو جمع کیا۔ ﴿وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ﴾ ”اور اپنی ذات پر( ان کو )ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود انہیں سخت ضرورت ہو۔“ یعنی انصار کے اوصاف میں سے ایک وصف ایثار ہے، جس کی بنا پر وہ دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں اور ان سے ممتاز ہیں اور یہ کامل ترین جو دو سخا ہے اور نفس کے محبوب اموال وغیرہ میں ایثار کرنا اور ان اموال کے خود حاجت مند بلکہ ضرورت مند اور بھوکے ہونے کے باوجود دوسرے پر خرچ کرنا، یہ وصف اخلاق زکیہ، اللہ تعالیٰ سے محبت، پھر شہوات نفس اور اس کی لذات پر اللہ کی محبت کو مقدم رکھنے ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ جملہ واقعات میں اس انصاری کا قصہ بھی بیان کیا جاتا ہے جس کے سبب سے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے جب اس نے خود کھانے اور اپنے گھروالوں کو کھلانے پر اپنے مہمان کو ترجیح دی اور تمام گھروالوں اور بچوں نے رات بھوکے بسر کی۔ (اِیثَار) ”ترجیح دینا“ (اثرۃ) ”خود غرضی“ کی ضد ہے ایثار قابل تعریف وصف ہے اور خود غرضی مذموم ہے کیونکہ یہ بخل اور حرص کے خصائل کے زمرے میں آتی ہے اور جسے ایثار عطا کیا گیا اسے نفس کے بخل وحرص سے بچا لیا گیا ﴿ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰیِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ ”اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچالیا گیا تو وہی لوگ فلاح یاب ہیں۔“ اور نفس کے حرص سے بچنے میں ایسے تمام امور میں حرص سے بچنا شامل ہے جن کا حکم دیا گیا ہے ،جب بندہ نفس کے حرص سے بچ گیا ،تو اس کے نفس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام آسان لگتے ہیں وہ خوشی سے سرتسلیم خم کرتے ہوئے انشراح صدر کے ساتھ ان کی تعمیل کرتا ہے، اور نفس کے لیے ان تمام امور کو ترک کرنا سہل ہوجاتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ،خواہ یہ نفس کے محبوب امور ہی کیوں نہ ہوں اور نفس اس کی طرف بلاتا اور ان کی طرف رغبت کیوں نہ دلاتا ہو۔ اس شخص کے نفس کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنا آسان ہوجاتا ہے اور اسی سے فوزوفلاح حاصل ہوتی ہے، برعکس اس شخص کے جو نفس کے بخل وحرص سے بچا ہوا نہیں بلکہ بھلائی کے بارے میں حرص کی بیماری میں مبتلا ہے اور یہ حرص شر کی جڑ اور اس کی بنیاد ہے۔ پس اہل ایمان کی یہ دو فضیلت والی پاک اصناف ہیں اور وہ صحابہ کرام اور ائمہ اعلام ہیں جنہوں نے سابقیت کے اوصاف، فضائل اور مناقب کو جمع کرلیا ان کے بعد کسی نے ان سے سبقت نہیں کی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھلائی میں پہلے لوگوں کو جالیا اور اس طرح وہ مومنوں کے سربراہ ،مسلمانوں کے سردار اور اہل تقوٰی کے قائدین بن گئے ۔ان کے بعد آنے والوں کے لیے یہی فضیلت کافی ہے کہ وہ ان کے نقش قدم پر چلیں اور ان کے طریق کو راہ نما بنائیں ،اس لیے بعد میں آنے والوں میں سے جو کوئی ان کو راہ نما بناتا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اگلی آیت میں فرمایا: