هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُجُوا ۖ وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ۖ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ۚ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ
اسی نے اہل کتاب (٢) کافروں کو ان کے گھروں سے نکال کر ان کے پہلے حشر (یعنی پہلی جلا وطنی) کی جگہ پہنچا دیا۔ مسلمانو ! تم تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ (مدینہ سے) نکل جائیں گے، اور وہ سمجھتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے، پس اللہ کا عذاب ان پر ایسی جگہ سے آیا جس کا وہ گمان بھی نہیں کرسکتے تھے، اور اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، چنانچہ وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں خراب کرنے لگے، پس اے آنکھوں والے ! تم لوگ عبرت حاصل کرو
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :﴿مَا ظَنَنْتُمْ﴾ اے مسلمانو ! تمہارے خیال میں بھی نہ تھا ﴿اَنْ یَّخْرُجُوْا﴾ کہ وہ اپنے گھروں سے نکل جائیں گے کیونکہ ان کے گھر محفوظ اور مصئون تھے اور وہ ان میں عزت اور غلبے کے ساتھ رہتے تھے ﴿وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ مَّانِعَتُہُمْ حُصُوْنُہُمْ مِّنَ اللّٰہِ﴾ ”اور وہ گمان کررہے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ سے بچالیں گے ۔“انہیں ان قلعوں پر بہت غرور تھا، ان قلعوں نے ان کو دھوکے میں مبتلا کررکھا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ان قلعوں کی وجہ سے ان تک پہنچا جاسکتا ہے اور نہ ان پر کوئی قابو پاسکتا ہے۔ اس کے ماوراء اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا امر مقدر کردیا جس سے انہیں ان کی محفوظ پناہ گاہیں بچاسکیں نہ قلعے اور نہ قوت اور مدافعت ہی کام آسکی ہے۔ اس لیے فرمایا :﴿فَاَتٰیہُمُ اللّٰہُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا ۤ﴾ ”پس اللہ نے انہیں وہاں سے آلیا جہاں سے انہیں گمان بھی نہیں تھا۔“ یعنی اس طریقے اور اس راستے سے جس کے بارے میں انہیں وہم وگمان بھی نہ تھا کہ یہاں سے ان کو آلیا جائے گا اور وہ یہ بات تھی ﴿ وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ﴾ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا ۔اس سے مراد شدید خوف ہے جو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی سپاہ ہے، جس کے سامنے تعداد اور سازو سامان کوئی فائدہ دیتا ہے نہ طاقت اور بہادری کوئی کام آتی ہے۔ وہ معاملہ جس کے بارے میں وہ سمجھتے تھے کہ اگر کوئی خلل واقع ہوا تو اس راستے سے داخل ہوگا اور وہ ان کے قلعے تھے جہاں داخل ہو کر وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگے اور ان قلعوں پر ان کے دل مطمئن تھے۔ جو کوئی غیر اللہ پر بھروسا کرتا ہے وہ بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور جو کوئی غیر اللہ کا سہارا لیتا ہے تو یہ اس کے لیے وبال بن جاتا ہے، چنانچہ ان کے پاس ایک آسمانی معاملہ آیا اور ان کے دلوں میں نازل ہوا جو صبر وثبات اور بزدلی وکمزوری کا محل ومقام ہوتے ہیں ۔چنانچہ اس نے ان کی قوت اور بہادری کو زائل کردیا اور اس کی جگہ کمزوری اور بزدلی دے دی تھی جس کو دور کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی حیلہ نہ تھا اور یہ چیز ان کے خلاف (مسلمانوں کی )مددگار بن گئی۔ بنابریں فرمایا :﴿یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَہُمْ بِاَیْدِیْہِمْ وَاَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ ۤ﴾ اور وہ یہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شرط پر مصالحت کی کہ ان کے اونٹ جو کچھ اٹھائیں سب ان کا ہے ۔اس بنا بر پر انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کی چھتوں کو اکھاڑ ڈالا جو انہیں بہت اچھی لگتی تھیں اور اپنی سرکشی کی بنا پر اپنے گھروں کے برباد کرنے اور اپنے قلعوں کے منہدم کرنے پر مسلمانوں کو مسلط کردیا تو یہ وہی ہیں جنہوں نے خود اپنے خلاف جرم کیا اور ان قلعوں اور گھروں کو برباد کرنے میں مددگار بنے۔ ﴿ فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ﴾ پس اے اہل بصیرت یعنی معاملات کی گہرائی میں اتر جانے والی بصیرت اور کامل عقل والو !عبرت حاصل کرو کیونکہ اس واقعے میں عبرت ہے، اس سے ان معاندین حق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے سلوک کی معرفت حاصل ہوتی ہے جو اپنی خواہشات نفس کے پیچھے چلتے ہیں ،جن کی عزت نے انہیں کوئی فائدہ دیا نہ طاقت انہیں بچا سکی، جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کا حکم آگیا اور ان کے گناہوں کی پاداش میں عذاب آ پہنچا ،تو ان کے قلعے ان کی حفاظت نہ کرسکے، لہٰذا اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ اسباب کے خصوص کا، چنانچہ یہ آیت کریمہ عبرت حاصل کرنے کے حکم پر دلالت کرتی ہے اور وہ ہے نظیر کے ذریعے سے اس کے نظیر سے عبرت حاصل کرنا اور کسی چیز کو اس چیز پر قیاس کرنا جو اس سے مشابہت رکھتی ہے ،اسی عبرت سے عقل کی تکمیل اور بصیرت روشن ہوتی ہے، ایمان میں اضافہ اور حقیقی فہم حاصل ہوتا ہے۔