بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے
اس سورۃ مبارکہ کو ”سورۃ بنی نضیر “کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے ۔بنو نضیر یہودیوں کا ایک بڑا قبیلہ تھا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت مدینہ کے مضافات میں آباد تھا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو انہوں نے جملہ یہود کے ساتھ آپ کی نبوت کا انکار کردیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے ان قبائل کے ساتھ معاہدہ کرلیا جو مدینہ منورہ میں آپ کے پڑوس میں آباد تھے ۔غزوہ بدر کے تقریبا چھ ماہ بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور ان سے گفتگو کی وہ (معاہدے کے مطابق) ان کلابیوں کی دیت کے بارے میں آپ کی مدد کریں جن کو عمرو بن امیہ ضمری نے قتل کیا تھا۔ انہوں نے کہا :”اے ابوالقاسم! ہم آپ کی مدد کریں گے آپ یہاں بیٹھیں یہاں تک کہ ہم آپ کے لیے دیت اکٹھی کردیں ،چنانچہ وہ تنہائی میں ایک دوسرے سے ملے اور شیطان نے ان کے لیے اس بدبختی کو آسان بنادیا جو ان کے لیے لکھ دی گئی تھی ،چنانچہ انہوں نے آپ کے قتل کی سازش کی اور آپ کے بارے میں کہنے لگے:” تم میں سے کون ہے جو اس چکی کو اٹھا کر چھت پر جائے اور اسے آپ کے سر پر دے مارے جس سے آپ کا سر کچلا جائے؟ “ ان میں سے بدبخت ترین شخص عمرو بن جحاش نے کہا :”یہ کام میں کروں گا۔“ سلام بن مشکم نے ان سے کہا :”یہ کام نہ کرو، اللہ کی قسم !تمہارے ارادے سے اسے ضرور آگاہ کردیا جائے گا اور یہ اس معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہےجو ہمارے اور اس کے درمیان ہوا ہے۔“ انہوں نے جو سازش کی تھی اس کے بارے میں آپ پر فورا وحی نازل ہوگئی آپ جلدی سے وہاں سے اٹھ گئے اور مدینہ کارخ کیا اور آپ کے صحابہ بھی (جو ساتھ گئے تھے) آپ سے مل گئے اور عرض کیا :”آپ وہاں سے اٹھ آئے ہیں اور ہمیں خبر بھی نہ ہوئی۔“ آپ نے انہیں اس سازش کے بارے میں آگاہ فرمایا جو یہودیوں نے آپ کے خلاف کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو پیغام بھیجوایا کہ ”مدینہ سے نکل جاؤ اور اس میں مت رہو، میں تمہیں دس دن کی مہلت دیتا ہوں، اس کے بعد میں نے جس کسی کو مدینہ میں پایا ،اس کی گردن مار دوں گا۔ “بنونضیر مدینہ منورہ میں کچھ دن ٹھہرے اور (وہاں سے نکلنے کی )تیاری کرتے رہے، عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق نے ان کو پیغام بھجوایا :”اپنے گھروں سے مت نکلو ،میرے ساتھ دو ہزار آدمی ہیں جو تمہارے ساتھ تمہارے قلعے میں داخل ہوں گے اور تمہاری خاطر اپنی جان دیں گے اور بنو قریظہ اور بنو غطفان میں سے تمہارے حلیف بھی تمہاری مدد کریں گے۔ “بنو نضیر کا سردار حی بن اخطب ،عبداللہ بن ابی کے کہنے میں آگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا :”ہم اپنے گھروں سے نہیں نکلیں گے جو چاہو کرلو۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور یہود کی طرف روانہ ہوگئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جھنڈا اٹھا رکھا تھا ۔یہودی اپنے قلعوں میں مقیم ہو کر پتھر اور تیر پھینکنے لگے ،بنوقریظہ ان سے الگ ہوگئے، عبداللہ بن ابی اور بنوغطفان میں سے ان کے حلیفوں نے بھی ان سے خیانت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کرلیا ،ان کے کھجوروں کے باغات کاٹ کر نذر آتش کردیے ۔بنونضیر نے پیغام بھیجا کہ ہم مدینہ سے نکل جائیں گے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر یہ شرط عائد کی کہ وہ اپنی اولاد کو لے کر نکل جائیں اور اسلحہ کے سوا وہ سب کچھ لے جائیں جو ان کے اونٹ اٹھاسکتے ہیں ۔اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مال اور اسلحہ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ بنو نضیر کے اموال خالص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہارت اور مسلمانوں کے مصالح کے لیے تھے۔ آپ نے اس مال میں سے خمس نہیں نکالا تھا کیونکہ یہ مال اللہ تعالیٰ نے آپ کو دلوایا تھا ۔مسلمانوں نے گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ ان پر چڑھائی نہیں کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کو خیبر کی طرف جلاوطن کردیا ،ان میں ان کا سردار حی بن اخطب بھی شامل تھا اور ان کی اراضی اور گھروں پر قبضہ کرلیا،نیز ان کے اسلحہ کو بھی قبضہ میں لے لیا ،اسلحہ میں پچاس زرہیں، پچاس خود اور تین سو چالیس تلواریں ہاتھ لگیں۔ یہ ہے بنونضیر کے قصے کا ماحصل جیسا کہ اہل سیرت نے اسے بیان کیا ہے۔