سورة المجادلة - آیت 17

لَّن تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُم مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا ۚ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ان کا مال اور ان کی اولاد اللہ کے مقابلے میں انہیں کچھ بھی کام نہیں آئے گی، وہ جہنمی لوگ ہیں، وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ اَمْوَالُہُمْ وَلَآ اَوْلَادُہُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْـــــًٔا ﴾ ”ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے ہاں ہرگز کچھ کام نہ آئیں گی ۔“یعنی وہ ان سے عذاب کو ہٹا سکیں گےنہ ثواب کا کچھ حصہ ان کے لیے حاصل کرسکیں گے۔﴿اُولٰیِٕکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ﴾ وہ آگ کے عذاب میں مبتلا رہنے والے ہیں جو کبھی عذاب سے باہر نہ نکلیں گے اور ﴿ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ﴾ ”وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ جو کوئی جس چیز پر ساری زندگی بسر کرتا ہے ،اسی پر مرتا ہے۔ جیسے منافقین دنیا کے اندر اہل ایمان کے ساتھ دھوکا کرتے ہیں اور قسمیں اٹھا اٹھا کر ان سے کہتے ہیں کہ وہ مومن ہیں تو جب قیامت قائم ہوگی اور اللہ تعالیٰ سب کو زندہ کرکے اٹھائیں گے تو جس طرح مومنوں کے لیے قسمیں اٹھایا کرتے تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے لیے بھی قسمیں اٹھائیں گے وہ اپنے اس حلف کے بارے میں سمجھیں گے کہ وہ کسی چیز پر قائم ہیں کیونکہ ان کا کفر ونفاق اور ان کے باطل عقائد ان کے اذہان میں آہستہ آہستہ راسخ ہوتے رہے، یہاں تک کہ ان عقائد نے ان کو دھوکے میں مبتلا کردیا اور وہ سمجھنے لگے کہ وہ معتد بہ موقف پر ہیں جس پر ثواب کا دارومدار ہے ،حالانکہ وہ ایسا سمجھنے میں جھوٹے ہیں اور یہ معلوم ہے کہ غائب اور موجود کا علم رکھنے والی ہستی کے سامنے جھوٹ نہیں چل سکتا۔ یہ ان پر شیطان کا غلبہ ہے جس نے ان پر قابو پارکھا ہے، اس نے ان کے سامنے ان کے اعمال آراستہ کردیے اور ان کو اللہ تعالیٰ کا ذکر فراموش کرادیا۔ وہ ان کا کھلا دشمن ہے اور ان کے ساتھ صرف برائی چاہتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾(فاطر :35؍6)” بس وہ تو اپنے گروہ کے لوگوں کو اپنی راہ پر اس لیے بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم والوں میں شامل ہوجائے۔“