وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَىٰ بَعْضُكُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا
اور وہ مال تم کیسے لوگے، حالانکہ تم دونوں آپس میں (گوشہ تنہائی میں) مل چکے ہو، اور انہوں نے تم سے بہت ہی سخت عہد و پیمان لے رکھا ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے اس کی حکمت بیان فرمائی ہے ﴿وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَىٰ بَعْضُكُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا﴾” تم اسے کیسے لے لو گے؟ حالانکہ تم ایک دوسرے سے مل چکے ہو اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہد و پیمان لے رکھا ہے“ اور اس کی توضیح یوں ہے کہ بیوی شوہر کے لیے نکاح سے قبل حرام ہوتی ہے اس نے بیوی کے طور پر حلال ہونے کے لیے صرف حق مہر کے عوض رضا مندی کا اظہار کیا تھا جو وہ بیوی کو ادا کرے گا۔ جب اس نے اپنی بیوی کے ساتھ خلوت صحیحہ میں صحبت اور مباشرت کی جو اس سے قبل حرام تھی اور وہ بیوی اس کے لیے اس عوض کے بغیر راضی نہ تھی، پس شوہر نے مہر کا معوض پوری طرح وصول کرلیا، تو اس پر عوض (مہر) کی ادائیگی واجب ہوگئی۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شوہر معوض (یعنی صحبت و مباشرت) تو پورا پورا وصول کرے پھر اس کے بعد حق مہر ادا نہ کرے۔ یہ بہت بڑا ظلم اور جور ہے۔ (اس لیے ایسا نہ کرو) اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عقد میں بیوی کے حقوق کے قیام کے لیے شوہروں سے پکا عہد لیا ہے۔ (اس کا بھی تقاضا عدل و کرم ہے نہ کہ ظلم و جبر)