فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا ۖ فَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ۚ ذَٰلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، اور جو شخص اس کی طاقت نہ رکھتا ہو، وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے، یہ حکم اس لئے ہے تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ، یہ اللہ کی حدیں ہیں، اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے
﴿ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ﴾ پس جو آزاد کرنے کے لیے غلام نہ پائے یا اس کے پاس غلام کی قیمت موجود نہ ہو تو اس کے ذمے ﴿ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَـاسَّا فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ﴾ تو مجامعت سے پہلے متواتر دو مہینے کے روزے ہیں اور جوروزے رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو ﴿ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ﴾ ”تو اس پر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ “یا تو وہ اپنے شہر میں مروّج خوراک میں سے انہیں کھانا کھلائے جو ان کے لیے کافی ہوجیسا کہ یہ بہت سے مفسرین کا قول ہے یا وہ ایک مسکین کو ایک مد گیہوں یا گیہوں کے علاوہ کسی دیگر جنس سے، جو صدقہ فطر میں کفایت کرتی ہو ،نصف صاع عطا کرے جیسا کہ مفسرین کے ایک دوسرے گروہ کی رائے ہے۔ یہ حکم جو ہم نے تمہارے سامنے بیان کیا ہے اور اسے واضح کیا ہے ﴿ لِتُؤْمِنُوا بِاللّٰـهِ وَرَسُولِهِ ﴾ ”تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ۔“ اور یہ ایمان اس حکم اور دیگر احکام کے التزام اور اس پر عمل کرنے ہی سے ممکن ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا التزام اور ان پر عمل کرنا ایمان ہے بلکہ یہ احکام اور ان پر عمل ہی درحقیقت مقصود ومطلوب ہیں، ان سے ایمان میں اضافہ اور اس کی تکمیل ہوتی ہے اور یہ نشوونما پاتا ہے۔ ﴿ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّٰـهِ ﴾ ”اور یہ اللہ کی حدود ہیں۔“ جو ان میں واقع ہونے سے روکتی ہیں ،اس لیے واجب ہے کہ ان حدود سے تجاوز کیا جائے نہ ان سے قاصر (پیچھے) رہا جائے ﴿ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ”اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔“ ان آیات کریمہ میں متعدد احکام بیان کیے گئے ہیں: ١۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف وکرم اور عنایت ہے کہ اس نے مصیبت زدہ عورت کی شکایت کا ذکر کرکے اس کی مصیبت کا ازالہ کیا بلکہ اس نے اپنے حکم عام کے ذریعے سے ہراس شخص کی مصیبت کا ازالہ کیا جو اس قسم کی مصیبت اور آزمائش میں مبتلا ہے۔ ٢۔ ظہار بیوی کو حرام ٹھہرا لینے کے ساتھ مختص ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ مِن نِّسَائِهِمْ ﴾”اپنی عورتوں سے۔“ اگر وہ اپنی لونڈی کو اپنے آپ پر حرام ٹھہراتا ہے تو یہ ظہار شمار نہ ہوگا بلکہ یہ طیبات کی تحریم کی جنس سے ہے، مثلا :کھانے پینے کو حرام ٹھہرا لینا۔ اس میں صرف قسم کا کفارہ واجب ہے۔ ٣۔ کسی عورت سے نکاح کرنے سے پہلے اس سے ظہار درست نہیں کیونکہ ظہار کے وقت وہ اس کی بیویوں میں داخل نہیں ہے جیسا کہ نکاح سے قبل مرد کسی عورت کو خواہ طلاق دے دے یا اس کو معلق کردے اس کو طلاق نہیں ہوسکتی۔ ٤۔ ظہارحرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے منکر کہا ہے۔ ٥۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی حکمت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ مَّا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ ﴾ ”وہ ان کی مائیں نہیں ہیں۔ “ ٦۔ ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مرد کے لیے مکروہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے محارم کے نام سے پکارے، مثلا: اے میری ماں! اے میری بہن! وغیرہ کیونکہ یہ بات محرمات سے مشابہت رکھتی ہے۔ ٧۔ کفارہ مجرد ظہار سے واجب نہیں ہوتا بلکہ سابقہ دونوں اقوال کے اختلاف معنی کے مطابق، ظہار کرنے والے کے ”رجوع کرنے “پر کفارہ واجب ہوتا ہے۔ ٨۔ کفارے میں چھوٹے یابڑے غلام کو اور مرد یا عورت کو آزاد کرنے سے کفارہ ادا ہوجاتا ہے کیونکہ آیت میں مطلق غلام کو آزاد کرنے کا حکم ہے۔ ٩۔ آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کفارے میں غلام آزاد کرنا یا روزے رکھنا ہے تو جماع سے قبل کفارہ ادا کرنا واجب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مقید ذکر کیا ہے، بخلاف مسکینوں کو کھانا کھلانے کے کیونکہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کے دوران میں جماع جائز ہے۔ ١٠۔ جماع سے قبل کفارے کے واجب ہونے میں شاید حکمت یہ ہے کہ اس سے کفارے کی ادائیگی میں زیادہ ترغیب ملتی ہے کیونکہ جب ظہار کرنے والے میں جماع کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ کفارہ ادا کیے بغیر جماع ممکن نہیں تو کفارہ ادا کرنے میں جلدی کرتا ہے۔ ١١۔ ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا واجب ہے۔ ظہار کا ارتکاب کرنے والا اگر ساٹھ مسکینوں کااکٹھا کھانا کسی ایک مسکین یا ایک سے زائد مسکینوں کو، جو تعداد میں ساٹھ سے کم ہوں، دے دے تو یہ جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ﴾” تو اس پر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔“