سورة المجادلة - آیت 2

الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنكُم مِّن نِّسَائِهِم مَّا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ ۖ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورًا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار (٢) کرلیتے ہیں (یعنی انہیں اپنی ماں سے تشبیہہ دے دیتے ہیں) وہ بیویاں ان کی مائیں نہیں ہوجاتی ہیں، ان کی مائیں صرف وہی عورتیں ہیں جنہوں نے انہیں جنا ہے، بے شک وہ لوگ سخت ناپسندیدہ بات اور جھوٹ بولتے ہیں، اور بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا، مغفرت فرمانے والا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

چنانچہ فرمایا: ﴿اَلَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْکُمْ مِّنْ نِّسَایِٕـہِمْ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمْ اِنْ اُمَّہٰتُہُمْ اِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَہُمْ ﴾”جو لوگ تم میں سے اپنی عورتوں سے ”ظہار“ کرلیتے ہیں ، وہ ان کی مائیں نہیں) ہوجاتیں( ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا۔“ بیوی کے ساتھ ظہار یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے کہے:” تو میرے لیے ایسے ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ۔“ یا ماں کے علاوہ دیگر محارم کا ذکر کرے یا یہ کہ:” تو مجھ پر حرام ہے۔“ عربوں کے ہاں اس موقع پر الظَّہر” پیٹھ“ کا لفظ بولا جاتا تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو ”ظہار“ سے موسوم کیا ہے، چنانچہ فرمایا :﴿اَلَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْکُمْ مِّنْ نِّسَایِٕــہِمْ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمْ﴾ یعنی وہ ایسی بات کیوں کر کہتے ہیں جس کے بارے میں انہیں معلوم ہے کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ اپنی بیویوں کو ان ماؤں سے تشبیہ دیتے ہیں جنہوں نے ان کو جنم دیا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ظہار کے معاملے کو بہت بڑا اور نہایت قبیح قرار دیا ہے ،چنانچہ فرمایا :﴿ وَاِنَّہُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا ﴾ یعنی وہ نہایت بری اور جھوٹی بات کہہ رہے ہیں۔ ﴿ وَاِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ﴾ یعنی اس سے جو کچھ مخالفت صادر ہوئی پھر اس نے خالص توبہ کے ذریعے سے اس کا تدارک کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف کرنے اور بخش دینے والا ہے۔