لِّئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّن فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
تاکہ اہل کتاب جان لیں (٢٧) کہ وہ اللہ کے فضل وکرم کے کسی حصہ میں تصرف کرنے میں کوئی قدرت نہیں کی، اور یہ کہ فضل و کرم صرف اللہ کے ہاتھوں میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ فضل عظیم والا ہے
﴿لِّئَلَّا یَعْلَمَ اَہْلُ الْکِتٰبِ اَلَّا یَــقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْءٍ مِّنْ فَضْلِ اللّٰہِ﴾ یعنی ہم نے تمہارے سامنے بیان کردیا ہے کہ اس شخص کو ہم اپنے فضل و احسان سے نوازتے ہیں جو عمومی ایمان سے بہرور ہوتا ہے، تقوٰی اختیار کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے رسول پر ایمان لاتا ہے۔ یہ وضاحت ہم نے اس لیے کی ہے تاکہ اہل کتاب کو یہ علم ہوجائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ یعنی وہ اپنی خواہشات نفس اور عقول فاسدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کو اس کے فضل سے روک نہیں سکتے، وہ کہتے ہیں۔ ﴿ لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ﴾ (بقرۃ:2؍111) ”جنت میں داخل نہیں ہوگا سوائے یہودی اور نصرانی کے۔“ اور وہ اللہ کے بارے میں فاسد آرزوئیں رکھتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں اور اللہ تعالیٰ کے لیے تقوٰی اختیار کرنے والوں کو آگاہ فرمایا ہے کہ اہل کتاب کے علی الرغم ان کے لیے دوگنی رحمت ،نور اور مغفرت ہے تاکہ انہیں معلوم ہوجائے ﴿وَاَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ﴾ ”کہ فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔“ جس کے بارے میں اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ اسے اپنا فضل عطا کرے۔ ﴿وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ وہ فضل عظیم کا مالک ہے جس کی مقدار کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔