لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ
ہم نے یقیناً اپنے رسلووں کو کھلی نشانیوں (٢٣) کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتابیں اور میزان اتارا، تاکہ لوگ عدل و انصاف قائم کریں، اور ہم نے لوہا پیدا کیا اس میں بڑا زور اور لوگوں کے لئے بہت سے فوائد ہیں، اور تاکہ کون (جہاد کرکے) بن دیکھے اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، بے شک اللہ قوت والا، زبردست ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ﴾’’یقینا ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا ۔‘‘ اس سے مراد وہ دلائل ،شواہد اور علامات ہیں جو اس چیز کی صداقت اور حقیقت پر دلالت کرتی ہیں جسے انبیائے کرام لے کر آئے ہیں۔ ﴿وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ﴾ ’’اور ہم نے ان پر کتاب اتاری۔‘‘ (اَلْکِتٰبَ) اسم جنس ہے جو ان تمام کتابوں کو شامل ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت اور ان امور کی طرف راہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے جو ان کے دین و دنیا میں فائدہ مند ہیں۔ ﴿وَالْمِیْزَانَ﴾ ’’اور میزان۔‘‘ اور وہ اقوال و افعال میں عدل کا نام ہے۔ وہ دین جو تمام رسول لے کر آئے وہ اوامر و نواہی اور مخلوق کے تمام معاملات، تمام جرائم، حدود، قصاص اور وراثت کے معاملات وغیرہ میں، سراسر عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ اور یہ اس لیے ﴿لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾ تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کر کے اور اپنے مصالح کے حصول کی خاطر جن کو شمار کرنا ممکن نہیں، عدل و انصاف پر قائم رہیں، یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام انبیاء ورسل، شریعت کے قاعدے پر متفق ہیں اور وہ ہے عدل کو قائم کرنا اگرچہ زمان و احوال کے مطابق عدل کی صورتیں مختلف ہیں۔ ﴿وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ﴾ ’’اور ہم نے لوہا پیدا کیا، اس میں سخت ہیبت و قوت ہے، یعنی آلات حرب، مثلا ہر قسم کا اسلحہ اور ذرہ بکتر وغیرہ۔ ﴿وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ﴾ ’’اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔‘‘ یہ وہ منافع ہیں جن کا مشاہدہ مختلف انواع کی صنعت و حرفت، مختلف اقسام کے برتنوں اور زرعی آلات میں کیا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ کم ہی کوئی ایسی چیز پائی جاتی ہوگی جو لوہے کی محتاج نہ ہو﴿وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ﴾ ’’تاکہ اللہ اسے جان لے جو بن دیکھے اس کی اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے کتاب اور لوہا اس لیے نازل فرمایا کہ وہ اس کے ذریعے سے آزمائش کا بازار گرم کرے تاکہ واضح ہوجائے کہ کون اس حالت غیب میں اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتے ہیں جس میں وہ ایمان فائدہ دیتا ہے جو مشاہدہ سے قبل ہو، مشاہدہ کے اندر ایمان کے وجود کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ تب تو ایمان ضروری اور اضطراری ہوگا۔ ﴿اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ﴾ ’’بیشک اللہ تعالیٰ قوی اور زبردست ہے۔‘‘ یعنی اسے کوئی عاجز کرسکتا ہے نہ کوئی بھاگنے والا اس سے بچ کر کہیں جاسکتا ہے۔ یہ اس کی قوت اور غلبے کا نشان ہے کہ اس نے لوہا نازل کیا جس سے بڑے بڑے طاقتور آلات بنتے ہیں۔ یہ اس کی طاقت اور غلبہ ہی ہے کہ وہ اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کی قدرت رکھتا ہے مگر وہ اپنے دشمنوں کے ذریعے سے اپنے اولیا کو آزماتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ کون بن د یکھے اس کی مدد کرتا ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے کتاب اور لوہے کو اکٹھا بیان کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کے ذریعے سے اپنے دین کو نصرت عطا کرتا ہے اور وہ اپنے کلمے کو کتاب کے ذریعے سے جس میں حجت و برہان ہے اور سیف ناصر کے ذریعے سے ،اللہ کے حکم کے ساتھ بلند کرتا ہے، دونوں عدل و انصاف قائم کرتی ہیں جس کے ذریعے سے باری تعالیٰ کی حکمت، اس کے کمال اور اس کی شریعت کے کمال پر استدلال کیا جاتا ہے جس کو اس نے اپنے رسولوں کی زبان پر مشروع فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ نے جملہ انبیائے کرام کی نبوت کا عمومی ذکر فرمایا تو ان میں سے دو خاص نبیوں، یعنی حضرت نوح، اور ابراہیم علیہما السلام کا ذکر بھی فرمایا جن کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے نبوت اور کتاب کو جاری کیا، چنانچہ فرمایا :