لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ
(یہ بات تمہیں اس لئے بتا دی گئی) تاکہ جو چیز تمہیں نہیں ملی، اس کا افسوس نہ کرو، اور جو نعمت اس نے تمہیں عطا کی ہے اس پر خوشی نہ مناؤ، اور اللہ ہر اس آدمی کو پسند نہیں کرتا ہے جو اترانے والا اور فخر کرنے والا ہوتا ہے
﴿لِّکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰیکُمْ﴾ اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے تاکہ ان کے سامنے یہ قاعدہ متحقق ہوجائے اور ان پر جو خیر و شر نازل ہوتا ہے اس کی بنا اس قاعدہ پر رکھیں۔ پس جس چیز کو ان کے دل چاہتے تھے اور اس کا اشتیاق رکھتے تھے، اس کے فوت ہونے پر مایوس اور غمگین نہ ہوں گے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ سب کچھ لوح محفوظ میں درج تھا جس کا نافذ اور واقع ہونا ایک لازمی امر تھا اور اس نوشتے کو روکنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ان کو عطا کیا ہے وہ اس پر تکبر اور اتراہٹ کے ساتھ فرحت کا اظہار نہ کریں گے کیونکہ انہیں علم ہے کہ انہیں جو کچھ حاصل ہوا ہے انہیں اپنی قوت اور طاقت سے حاصل نہیں ہوا بلکہ یہ سب کچھ تو انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے احسان کے ذریعے سے حاصل ہوا ہے۔ لہٰذا ان کو چاہیے کہ وہ اس ہستی کے شکر میں مشغول رہیں جس نے نعمتیں عطا کیں اور زحمتوں کو دور کیا۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُـــوْرِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ درشت خو، خود پسند اور متکبر کو پسند نہیں کرتا جو فخر کرتا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو خود اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور اسے یہ نعمتیں سرکشی اور غفلت میں مبتلا کرتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ ﴾ (الزمر : 39؍49)’’پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے نعمتوں سے نواز دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے میرے علم و دانش کی وجہ سے عطا کیا گیا ہے۔ (ایسی بات نہیں)بلکہ یہ تو ایک آزمائش ہے۔‘‘