سورة النسآء - آیت 16

وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور تم میں سے جو دو افرادایسا کریں (23) تو انہیں ایذا دو، پس اگر دونوں توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں، تو ان سے اعراض کرلو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اور اسی طرح ﴿وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ ﴾ تمہارے مردوں اور عورتوں میں سے جو کوئی اس فحش کام کا ارتکاب کرتا ہے ﴿فَآذُوهُمَا ﴾ پس انہیں زبانی طور پر زجر و توبیخ اور ملامت کرو اور اس برے کام پر عار دلاؤ اور ان کو عبرت ناک مار پیٹ کی سزا دو، جس سے یہ اس فحش کام سے رک جائیں۔ تب اس صورت میں مردوں کو اس فحش کام کے ارتکاب پر مار پیٹ کی سزا دی جائے اور عورتوں کو گھروں میں محبوب رکھ کر سزا دی جائے۔ پس حبس (گھر میں بند کردینا) کی انتہا، موت ہے اور مار پیٹ کی اذیت کی انتہا، توبہ اور اصلاح ہے بنا بریں فرمایا : ﴿فَإِن تَابَا  ﴾یعنی اگر وہ اپنے اس گناہ سے رجوع کرلیں جس کا انہوں نے ارتکاب کیا اس فعل پر نادم ہوں اور دوبارہ نہ کرنے کا عزم کریں ﴿وَأَصْلَحَا ﴾ یعنی اپنے طرز عمل کی اصلاح کرلیں جو ان کی سچی توبہ پر دلالت کرے ﴿ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا﴾ تو ان کو اذیت پہنچانے سے گریز کرو ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا﴾ یعنی وہ خطا کار گناہگاروں کی توبہ کو بہت کثرت سے قبول کرتا ہے، وہ عظیم رحمت و احسان کا مالک ہے۔ یہ اس کا احسان ہے کہ اس نے انہیں توبہ کی توفیق سے نوازا پھر ان کی توبہ کو قبول فرمایا اور ان سے صادر ہونے والے گناہوں کے بارے میں ان سے نرمی اختیا رکی۔ ان دو آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ زنا کی شہادت میں چار مومن مردوں کی گواہی ضروری ہے اور ان کی عدالت کی شرط عائد کرنا بطریق اولیٰ ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس فحش کام کے بارے میں بہت سختی کی ہے تاکہ اس سے بندوں کی پردہ پوشی رہے۔ یہاں تک کہ اس بارے میں عورتوں کی شہادت، خواہ وہ اکیلی ہو یا مردوں کی معیت میں، ناقابل قبول ٹھہرایا ہے اور چار مردوں سے کم کی گواہی بھی قبول نہیں کی نیز اس میں صراحت کے ساتھ شہادت کو لازم قرار دیا ہے۔ جیسا کہ صحیح احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں اور یہ آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہے ﴿فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ ﴾ پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فرمایا : ﴿فَإِن شَهِدُوا ﴾یعنی ایک ایسے معاملے میں اشارہ کنایہ کے بغیر صریح شہادت لازم ہے جسے آنکھوں سے مشاہدہ کیا گیا ہو۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قول و فعل سے اذیت پہنچانا اور قید کردینا، اس کو اللہ نے معصیت کاری کے لیے تعزیر بنایا جس سے زجر و توبیخ کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔