وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا
اور تقسیم میراث کے وقت رشتہ دار، ایتام اور مساکین موجود ہوں (10) تو انہیں بھی اس میں سے کچھ دو، اور ان سے نرمی سے بات کرو
یہ اللہ تعالیٰ کے بہترین اور جلیل ترین احکام میں سے ہے جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ﴾یعنی میراث کی تقسیم کے وقت ﴿أُولُو الْقُرْبَىٰ﴾ یعنی وہ رشتہ دار جو میت کے واثر نہیں ہیں اور اس کا قرینہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿الْقِسْمَةَ﴾ ہے کیونکہ ورثاء تو وہ لوگ ہیں جن میں وراثت تقسیم ہوگی ﴿وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينُ ﴾ ” یتیم اور مساکین“ یعنی فقراء میں سے مستحق لوگ ﴿فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ﴾یعنی اس مال میں سے جو تمہیں بغیر کسی کدو کاوش اور بغیر کسی محنت کے حاصل ہوا۔ ان کو بھی جتنا ہوسکے عطا کر دو۔ کیونکہ ان کا نفس بھی اس کا اشتیاق رکھتا ہے اور ان کے دل بھی منتظر ہیں۔ پس تم ان کے دل جوئی کی خاطر اتنا مال ان کو دے دو جس سے تمہیں نقصان نہ ہو اور ان کے لیے فائدہ مند ہو۔ اس معنی سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ ا گر انسان کے سامنے کوئی چیز رکھی جائے اور وہاں کوئی ایسا فرد موجود ہو جو کسی آس میں اس پر نظر رکھتا ہو تو اس شخص کے لیے مناسب ہے کہ جتنا بھی ہوسکے اس کو عطا کر دے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے سامنے کھانا پیش کرے تو وہ اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلائے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو اسے ایک یا دو لقمے عطا کر دے۔“[صحيح البخاري، العتق، باب إذا أتي أحدكم خادمه بطعامه، ح: 2557] صحابہ کرام کا طریقہ یہ تھا کہ جب ان کے سامنے موسم کا پہلا پھل آتا تو وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے، آپ اس میں برکت کی دعا فرماتے اور پھر وہاں موجود سب سے چھوٹے بچے کو عطا کردیتے، یہ جانتے ہوئے کہ یہ ننھا بچہ نہایت شدت سے اس کی خواہش رکھتا ہوگا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہے جب عطا کرنا ممکن ہو اگر عطا کرنا ممکن نہ ہو۔۔۔ مثلاً یہ بے سمجھ لوگوں کا حق ہے یا اس سے بھی اہم کوئی اور وجہ ہو تو ایسی صورت میں ﴿قَوْلًا مَّعْرُوفًا ﴾ ان کو اچھی اور غیر قبیح بات کہہ کر بھلے طریقے سے لوٹا دو۔