وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا
اور عورتوں کو ان کا مہر (5) بخوشی دے دو، اگر وہ اپنی خوشی سے، اس میں سے کچھ تمہیں دے دیں تو اسے خوشی اور رغبت کے ساتھ کھا لو
چونکہ اکثر لوگ اپنی بیویوں پر ظلم کرتے ہیں اور ان کے حقوق غصب کرلیتے ہیں۔ خاص طور پر حق مہر (اکثر) بہت زیادہ ہوتا ہے یہ مہر ایک ہی بار پورے کا پورا ادا کرنا باعث مشقت ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا اور ان کو تاکید کی کہ وہ اپنی بیویوں کو مہر ادا کریں ﴿ صَدُقَاتِهِنَّ ﴾یعنی ان کے5 مہر﴿نِحْلَةً ۚ ﴾ یعنی ان کا مہر خوش دلی اور اطمینان قلب کے ساتھ ادا کرو۔ مہر ادا کرنے میں ٹال مٹول نہ کرو اور اسے ادا کرتے وقت اس میں کچھ کم نہ کرو۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر عورت مکلف (یعنی بالغ اور عاقل) ہو تو مہر اس کو ادا کردیا جائے گا اور عقد کے موقع پر عورت مہر کی مالک بن جاتی ہے۔ کیونکہ حق مہر کی اضافت اس کی طرف جاتی ہے اور اضافت تملیک کا تقاضا کرتی ہے۔ ﴿ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ ﴾ ” اگر وہ خود اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ چھوڑ دیں“ یعنی حق مہر سے ﴿نَفْسًا ﴾ یعنی اگر بیویاں برضاو رغبت مہر کا کچھ حصہ چھوڑ کر یا ادائیگی میں مہلت دے کر یا مہر کا کوئی عوض قبول کر کے شوہروں کے ساتھ نرمی کرتی ہیں ﴿فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا ﴾ ” تو کھاؤ تم اس کو ذوق شوق سے“ یعنی اس صورت میں تمہارے لیے کوئی حرج اور کوئی نقصان نہیں۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت بالغ اور عاقل ہے تو اپنے مال میں تصرف کا پورا اختیار رکھتی ہے۔ خواہ وہ صدقہ ہی کیوں نہ کر دے۔ لیکن اگر بالغ اور عاقل نہیں ہے تو اس کے عطیہ کا حکم معتبر نہیں نیز عورت کا سرپرست اس مہر میں سے کچھ حصہ لینے کا حق دار نہیں سوائے اس کے، کہ عورت برضا و رغبت خود اسے کچھ عطا کر دے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ﴾میں اس بات کی دلیل ہے کہ خبیث یعنی ناپاک عورت سے نکاح مامور نہیں، بلکہ خبیث عورتوں سے نکاح کرنا منع ہے مثلاً مشرک اور فاسق وفا جر عورت سے۔۔۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ﴾(البقرۃ : 2؍ 221) ” مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ اور فرمایا ﴿وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ﴾ (النور :24؍ 3)’’بدکار عورت کے ساتھ ایک زانی اور مشرک مرد کے سوا کوئی نکاح نہیں کرتا۔ “