سورة آل عمران - آیت 191

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلو کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد (128) کرتے ہی، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) اے ہمارے رب ! تو نے انہیں بے کار نہیں پیدا کیا ہے، تو ہر عیب سے پاک ہے، پس تو ہمیں عذاب نار سے بچا۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ  ﴾ یہ قلبی و قولی ذکر اور ذکر کی تمام انواع کو شامل ہے اور اس میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنا، اگر کھڑے ہونے کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اگر بیٹھنے کی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر نماز پڑھنا بھی شامل ہے۔ نیز ﴿وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾وہ زمین و آسمان کی تخلیق پر غور و فکر کرتے یعنی ان سے ان کی تخلیق کے مقصد پر استدلال کرتے ہیں۔ نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات میں غور و فکر کرنا عبادت ہے اور عارفین اولیاء اللہ کی صفت ہے۔ جب وہ اس کائنات میں غور و فکر کرتے ہیں تو انہیں اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عبث پیدا نہیں کیا، پس وہ پکار اٹھتے ہیں ﴿ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَـٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ ﴾ تیری ذات ہر اس وصف سے پاک ہے جو تیرے جلال کے لائق نہیں، تو نے اسے حق کے ساتھ حق کے لیے بلکہ حق پر مشتمل پیدا کیا ہے۔﴿فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴾ ’’پس تو ہمیں جہنم سے بچا“ بایں طور کہ ہمیں برائیوں سے بچا اور نیک اعمال کی توفیق عطا کر، تاکہ اس کے ذریعے سے ہم جہنم کی آگ سے نجات حاصل کرسکیں۔ یہ دعا جنت کے سوال کو بھی متضمن ہے۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے گا تو انہیں جنت حاصل ہوجائے گی۔ مگر جب ان کے دلوں پر خوف چھا گیا تو انہوں نے ان امور کی دعا مانگی جو ان کے لیے زیادہ اہم تھے۔