سورة الطور - آیت 44

وَإِن يَرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاءِ سَاقِطًا يَقُولُوا سَحَابٌ مَّرْكُومٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور کفار اگر آسمان کا ایک ٹکڑا (٢٥) بھی گرتا ہوا دیکھیں گے تو کہیں گے کہ یہ تہ بہ تہ جما ہوا ایک بادل ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک وتعالی ان آیات میں فرماتا ہے کہ مشرکین جو واضح حق کو جھٹلاتے ہیں انہوں نے حق کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی اور باطل پر نہایت سختی سے جم گئے ہیں نیز بیان فرمایا کہ اگر حق کے اثبات کے لیے ہر قسم کی دلیل قائم کردی جائے تو پھر بھی وہ اس کی اتباع نہیں کریں گے بلہ اس کی مخالفت کرتے رہیں گے اور اس سے عناد رکھیں گے ﴿وَاِنْ یَّرَوْا کِسْفًا مِّنَ السَّمَاءِ سَاقِـطًا﴾ یعنی اگر وہ بہت بڑی نشانیوں میں سے آسمان کاٹکڑا عذاب بن کر گرتا دیکھیں گے ﴿ یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْکُوْمٌ﴾ تو کہیں گے یہ تو عام عادت کے مطابق گہرا بادل ہے یعنی وہ جن آیات الٰہی کا مشاہدہ کریں گے ان کی پروا کریں گے نہ ان سے عبرت حاصل کریں گے عذاب اور سخت سزا کے سوا ان لوگوں کا کوئی علاج نہیں۔ اس لیے فرمایا: ﴿فَذَرْہُمْ حَتّٰی یُلٰقُوْا یَوْمَہُمُ الَّذِیْ فِیْہِ یُصْعَقُوْنَ﴾ ’’پس ان کو چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ دن جس میں وہ بے ہوش ہوجائیں گے سامنے آجائے۔‘‘ اس سے مراد قیامت کا دن ہے جس میں ان پر عذاب نازل ہوگا جس کی مقدار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے نہ اس کا وصف بیان کیا جاسکتا ہے۔