وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ
اور آپ لوگوں کو نصیحت (٢٢) کرتے رہئے، اس لئے کہ نصیحت یقیناً مومنوں کے لئے نفع بخش ہوتی ہے
﴿ وَّذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اور نصیحت کیجئے بلاشبہ نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے،، اور تذکیر کی دو اقسام ہیں: 1۔ ایسے امور کے ذریعے سے تذکیر جن کی تفصیل کی معرفت حاصل نہیں، البتہ وہ فطرت اور عقل کے ذریعے سے مجمل طور پر معروف ہیں کیونکہ اللہ تبارک وتعالی نے عقل میں خیر سے محبت اور خیر کو ترجیح دینا، شر کو ناپسند کرنا اور اس سے دور بھاگنا ودیعت کردیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی شریعت اس کے موافق ہے پس شریعت کا ہر امرونہی، تذکیر ہے، تذکیر کامل یہ ہے کہ مامورات شریعت میں بھلائی، حسن اور انسانی مصالح پوشیدہ ہیں ان کا ذکر کیا جائے اور منہیات میں جو نقصانات پنہاں ہیں ان کا ذکر کیا جائے۔ 2۔ تذکیر کی دوسری قسم ان امور کے ذریعے سے تذکیر ہے جو اہل ایمان کو معلوم ہیں۔ مگر غفلت اور مدہوشی نے انہیں ڈھانپ رکھا ہے، ان کو ان امور کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے ان کے سامنے ان باتوں کو مکرر بیان کیا جاتا ہے۔ تاکہ یہ باتیں ان کے ذہن میں راسخ ہوجائیں ان کو تنبیہ کی جاتی ہے اور جن باتوں کی انہیں یاد دہانی ہوئی ہے ان پر عمل پیرا ہوں نیز یہ کہ ان میں نشاط اور ہمت پیدا ہو جو ان کے لیے فائدے اور بلندی کی موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ نصیحت اور تذکیر مومنوں کو فائدہ دیتی ہے کیونکہ ان کے پاس جو سرمایہ ایمان، خشیت الٰہی، انابت الی اللہ اور اتباع رسول ہے یہ تمام اوصاف اس بات کے موجب ہیں کہ تذکیر ان کو فائدہ دے اور نصیحت ان کے دل میں اتر جائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذِّكْرَىٰ سَيَذَّكَّرُ مَن يَخْشَىٰ وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى ﴾(الاعلیٰ:87؍9۔11) ’’(اے نبی!) آپ نصیحت کرتے رہیے اگر نصیحت نفع سے جو خشیت سے بہرور رہے، وہ ضرور نصیحت پکڑے گا اور بدبختی کا مارا ہوا اس سے پہلوتہی کرے گا۔،، جس میں ایمان کی رمق ہے نہ نصیحت قبول کرنے کی استعداد اس کو تذکیر اور نصیحت کوئی فائدہ نہیں دیتی وہ اس شور زدہ زمین کے مانند ہے جس کو بارش سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، اس قسم کے لوگوں کے پاس اگر تمام نشانیاں بھی آجائیں تو وہ پھر بھی اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔