كَذَٰلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ
اسی طرح ان سے پہلی قوموں کے پاس جب بھی کوئی رسول (٢١) آیا، تو انہوں نے یہی کہا کہ یہ جادو گر یا مجنوں ہے
اللہ تبارک وتعالی اپنے رسول کو مشرکین کی تکذیب کے مقابلے میں تسلی دیتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرتے ہیں اس کے بارے میں مختلف بری باتیں کرتے ہیں جن سے وہ منزہ اور پاک ہے ایسی باتیں کہنا ہمیشہ سے ان مجرموں اور رسولوں کو جھٹلانے والوں کی عادت رہی ہے اللہ نے کوئی ایسا رسول مبعوث نہیں فرمایا جس پر اس کی قوم نے جادوگر اور مجنون ہونے کا بہتان نہ لگایا ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اقوال جو ان کے اولین وآخرین سے صادر ہوئے ہیں کیا یہ ایسے اقوال نہیں جن کی انہوں نے ایک دوسرے کو وصیت اور ایک دوسرے کو تلقین کی ہے؟ پس اس سبب سے ان کا ان اقوال پر اتفاق کرلینا کچھ بعید نہیں۔ ﴿بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ ﴾ بلکہ وہ سرکش لوگ ہیں ان کے دل اور اعمال کفر اور سرکشی کے سبب سے باہم مشابہت رکھتے ہیں۔ پس ان کی سرکشی سے جنم لینے والے ان کے اقوال بھی باہم مشابہت رکھتے ہیں اور فی الواقع ایسا ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللّٰـهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ﴾( البقرة:2؍118) ’’اور وہ لوگ جو کچھ نہیں جانتے کہتے ہیں اللہ ہم سے ہم کلام کیوں نہیں ہوتا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی اسی طرح ان سے پہلے لوگ ان جیسی باتیں کیا کرتے تھے ان کے دل ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں۔،، اور اسی طرح اہل ایمان کے دل چونکہ اطاعت حق اور اس کی طلب اور کوشش میں باہم مشابہ ہیں اس لیے وہ اپنے رسولوں پر ایمان، ان کی تعظیم توقیر اور ان کے مرتبے کے لائق خطاب کے ذریعے سے مخاطب ہونے میں جلدی کرتے ہیں۔