سورة البقرة - آیت 39

وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جو لوگ کفر کریں گے اور ہماری نشانیوں کو جھٹلائیں گے وہی لوگ جہنم والے ہوں گے، اور اس میں ہمیشہ رہیں گے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پس اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی پر چار چیزیں مرتب ہوتی ہیں۔ بندے سے حزن و خوف کی نفی۔ حزن اور خوف میں فرق یہ ہے کہ اگر غیر پسندیدہ امر گزر چکا ہو تو وہ دل میں حزن کا باعث ہوتا ہے اور اگر وہ اس غیر پسندیدہ امر کا منتظر ہو تو یہ خوف پیدا کرتا ہے۔ پس جس کسی نے ہدایت الٰہی کی پیروی کی اس سے حزن و خوف دور ہوگئے اور جب اس سے حزن و خوف کی نفی ہوگئی تو ان کی ضد ثابت ہوگئی اور وہ ہے ہدایت اور سعادت، لہٰذا جو کوئی بھی اس کی ہدایت کی پیروی کرتا ہے اسے امن، دنیاوی اور اخروی سعادت اور ہدایت حاصل ہوتی ہے اور ہر تکلیف دہ چیز یعنی حزن و خوف اور ضلالت و شقاوت اس سے دور کردی جاتی ہے۔ ہر مرغوب چیز اسے عطا کردی جاتی ہے اور خوف زدہ کرنے والی چیز اس سے دور ہٹا دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس اس شخص کا معاملہ ہوگا جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی نہ کی، پس اس کا انکار کیا اور اس کی آیات کو جھٹلایا۔ ﴿ اُولٰۗیِٕکَ اَصْحٰبُ النَّارِ﴾” یہی لوگ جہنمی ہیں“ یعنی جہنم ان کے لئے لازم ہے۔ جیسے ساتھی دوسرے ساتھی سے اور قرض خواہ مقروض سے چمٹا رہتا ہے۔ ﴿ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ﴾” وہ اس جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔“ کبھی اس سے باہر نہیں نکلیں گے جہنم کا عذاب کبھی ان سے کم نہ ہوگا اور نہ ان کو کوئی مدد پہنچے گی۔ ان آیات کریمہ اور ان جیسی دیگر آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مخلوق میں سے تمام جن و انس، اہل سعادت اور اہل شقاوت کی اقسام میں منقسم ہیں۔ ان آیات میں دونوں فریقوں کی صفات اور ان اعمال کا ذکر کیا گیا ہے جو سعادت یا شقاوت کے موجب ہیں۔ ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ” جن“ ثواب و عقاب کے معاملے میں انسانوں کی طرح ہیں جس طرح وہ ان کی مانند امرو نہی کے مکلف ہیں۔