أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ
کیا ہم انسانوں کی پہلی تخلیق (٩) سے تھک گئے تھے، بلکہ وہ اپنی نئی (دوبارہ) تخلیق کے بارے میں شبہ میں مبتلا ہیں
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے والو ! تم ان گزری ہوئی قوموں سے بہتر ہو نہ گزرے ہوئے رسول تمہارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہتر ہیں، اس لئے ان کے جرم سے بچو ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہی عذاب نازل ہوجائے جو ان قوموں پرنازل ہوا تھا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے تخلیق اول یعنی ابتدائی پیدائش کے ذریعے سے آخرت کی تخلیق پر استدلال کیا۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ ان کو عدم کے بعد وجود میں لایا اسی طرح وہ ان کے مرنے اور ان کے مٹی ہوجانے کے بعد انہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا۔ اس لئے فرمایا : ﴿أَفَعَيِينَا ﴾ کیا ہم بے بس ہوگئے اور ہماری قدرت کمزور پڑگئی ﴿بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ﴾ ” پہلی بار پیدا کرکے۔“ معاملہ ایسا نہیں ہے، ہم ایسا کرنے سے عاجز ہیں نہ بے بس اور انہیں اس بارے میں کوئی شک بھی نہیں، وہ تو تخلیق جدید کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں اور اس کا معاملہ ان پر ملتبس ہو کر رہ گیا ہے، حالانکہ یہ التباس کا مقام نہیں کیونکہ اعادہ ابتدا سے زیادہ سہل ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ﴾(الروم : 30؍27) ” وہی ہے جو تخلیق کیا ابتدا کرتا ہے پھر وہ اس کا اعادہ کرے گا اور اس کے لئے آسان تر ہے۔ “