وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ ۚ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ
اور تم جان لوکہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول (٦) موجود ہیں، اگر وہ بہت سے امور میں تمہاری بات مان لیں تو تم مشکل میں پڑجاؤ، لیکن اللہ نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے، اور تمہارے دلوں میں اس کی زینت وخوبی بٹھا دی ہے، اور تمہارے لئے کفر اور نافرمانی اور گناہ کو قابل صد نفرت بنا دیا ہے، یہی لوگ راہ راست پر گامزن ہیں
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے اندر موجود ہیں وہ ایسے رسول ہیں، جو صاحب کرم، نیک طینت اور راہ راست دکھانے والے ہیں، جو تمہاری بھلائی چاہتے ہیں اور تمہارے خیر خواہ ہیں جبکہ تم اپنے لئے شر اور ضرر چاہتے ہو، جس پر رسول تمہاری موافقت نہیں کرسکتے۔ اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت سے معاملات میں تمہاری اطاعت کرنے لگے تو تم مشقت میں پر جاؤ گے اور ہلاکت میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں رشدو ہدایت کی راہ دکھاتے ہیں، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ایمان کو محبوب بناتا ہے، اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کرتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں حق کی محبت اور اس کی ترجیح و دیعت کی ہے، اس نے حق پر جو شواہد اور دلائل قائم کیے ہیں، جو اس کی صحت پر دلالت کرتے ہیں اور قلوب اور فطرت اس کی قبولیت کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انابت کی جو توفیق عطا کرتا ہے۔۔۔ وہ ان کے ذریعے سے تمہارے دلوں میں ایمان کو مزین کرتا ہے۔ اس نے تمہارے دلوں میں شر سے جو نفرت ودیعت کی ہے، تمہارے دلوں میں شر کی تعمیل کا جوارادہ معدوم ہے، اس نے شر کے فساد اور اس کی مضرت پر جو شواہد اور دلائل قائم کیے ہیں، تمہارے دلوں اور فطرت کے اندر شر کی جو عدم قبولیت ودیعت کی ہے اور دلوں کے اندر اللہ تعالیٰ نے شر کے لئے جو کراہت پیدا کی ہے۔۔۔ وہ ان کے ذریعے سے تمہارے دلوں کے لئے کفر و فسق یعنی چھوٹے بڑے گناہ کو ناپسندیدہ بناتا ہے۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ ﴾ یعنی وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان مزین کردیا اور اسے ان کا محبو بنادیا اور ان کو کفر، گناہ اور معصیت سے بیزار کردیا ﴿ هُمُ الرَّاشِدُونَ ﴾ ”وہی راہ ہدایت پر ہیں۔“ یعنی جن کے علوم و اعمال درست ہوگئے اور وہ دین قویم اور صراط مستقیم پر کاربند ہوگئے۔