سورة الفتح - آیت 25

هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر (١٦) کیا، اور تمہیں مسجد حرام سے روکا، اور قربانی کے جانور کو اس کی جگہ پر پہنچنے سے روکا، اور اگر (مکہ میں) چند مومن مرد اور چند مومن عورتیں نہ ہوتیں جن کی تمہیں خبر نہ ہونے کی وجہ سے تم انہیں روند ڈالتے، پھر لاعلمی میں (ایساکرگذرنے سے) تمہیں ان کے بارے میں رنج ہوتا ( تو تمہیں لڑائی سے نہ روکا جاتا، اور جنگ اس لئے بھی نہیں ہوئی) تاکہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت (دین اسلام) میں داخل کردے، اگر وہ مسلمان الگ ہوتے تو ہم مکہ کے کافروں کو درد ناک عذاب دیتے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا ہے جو مشرکین کے خلاف قتال کا باعث ہیں اور وہ ہیں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ان کا کفر کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہل ایمان ساتھیوں کو بیت اللہ کی زیارت کرنے، اس کی تعظیم کرنے اور حج و عمرہ کے لئے آنے سے روکنا۔ انہی لوگوں نے ﴿ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا﴾ قربانی کے جانوروں کو روکا ﴿أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ﴾ ” کہ وہ اپنی قربانی کی جگہ پہنچ جائیں۔“ اس سے مراد مکہ مکرمہ میں ذبح کی جگہ ہے، جہاں قربانیوں کو ذبح کیا جاتا ہے۔ پس انہوں نے ظلم اور تعدی کی بنا پر ان قربانیوں کو اس مقام پر پہنچنے سے روک دیا، یہ تمام امور ان کے خلاف قتال کے داعی اور موجب ہیں۔ لیکن وہاں ایک اور مانع بھی ہے اور وہ ہے مشرکین کے اندر اہل ایمان مرد اور عورتوں کا موجود ہونا، ان کی موجودگی کا محل و مقام ممیز نہ تھا جہاں ان کو نقصان پہنچ جانے کا امکان تھا۔ اگر یہ مومن مرد اور مومن عورتیں نہ ہوتیں، جن کو مسلمان نہ جانتے تھے ﴿أَن تَطَئُوهُمْ﴾ یعنی ان کو لاعلمی میں روند ڈالنے کا خدشہ نہ ہوتا ﴿فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ ” تم کو ان کی طرف سے بے خبری میں نقصان پہنچ سکتا تھا۔“ (اَلْمَعَرَّۃُ) سے مراد وہ تکلیف اور نقصان ہے، جو کفار کے ساتھ قتال کے دوران ان اہل ایمان کو بے خبری میں پہنچ سکتا تھا اور اخروی فائدہ یہ ہے کہ اللہ اپنی رحمت میں جسے چاہے داخل کرلے، اللہ تعالیٰ ان کو کفر کے بعد ایمان سے اور گمراہی کے بعد ہدایت سے نوازتا ہے، پس اس سبب سے اللہ تعالیٰ تمہیں ان کے ساتھ قتال کرنے سے روکتا ہے۔ ﴿لَوْ تَزَيَّلُوا﴾ اگر وہ کفار سے الگ ہوجاتے ﴿لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا﴾ ” تو جو ان میں کافر تھے ہم انہیں دردناک عذاب دیتے۔“ وہ اس طرح کہ ہم تمہارے لئے ان سے جنگ کو مباح کردیتے، تمہیں ان کے خلاف لڑنے کی اجازت دے دیتے اور تمہیں ان کے خلاف نصرت سے نوازتے۔