سورة الفتح - آیت 10

إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت (٧) کرتے ہیں، وہ درحقیقت اللہ سے بیعت کرتے ہیں، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے، پس جو شخص بد عہدی کرے گا، تو اس بد عہدی کا برا انجام اسی کو ملے گا، اور جو شخص اس عہد پر قائم رہے گا جو اس نے اللہ سے کیا تھا، تو اللہ اسے اس کا اجر عظیم عطا فرمائے گا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ بیعت، جس کی طرف اللہ تبارک و تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ” بیعت رضوان“ ہے، اس میں صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی کہ وہ آپ کو چھوڑ کر فرار نہیں ہوں گے۔ یہ ایک خاص معاہدہ ہے جس کے لوازم میں سے ہے کہ وہ آپ کو چھوڑ کر فرار نہ ہوں، خواہ بہت ہی تھوڑے لوگ کیوں نہ باقی رہ جائیں اور خواہ ایسی صورت حال میں ہوں جہاں فرار ہونا جائز ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں، حقیقت امر یہ ہے کہ وہ ﴿ يُبَايِعُونَ اللّٰـهَ﴾ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاہدہ کر رہے ہیں، حتیٰ کہ یہ اس کی شدت تاکید ہے کہ فرمایا : ﴿يَدُ اللّٰـهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ﴾ ” اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔“ گویا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیعت کی ہے اور اس بیعت میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ مصافحہ کیا ہے۔ یہ سب کچھ زیادہ تاکید، تقویت اور ان کو اس بیعت کے پورا کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے فرمایا، بنابریں فرمایا : ﴿ فَمَن نَّكَثَ﴾ ” پس جو بیعت کو توڑے“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اسے پورا نہ کرے ﴿فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ﴾ ” تو بے شک عہد توڑنے کا نقصان اسی کو ہے۔“ کیونکہ اس کا وبال اسی کی طرف لوٹے گا اور اس کی سزا اسی کو ملے گی۔ ﴿وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللّٰـهَ﴾ ” اور جو اس بات کو، جس کا اس نے اللہ سے عہد کیا ہے، پورا کرے۔“ یعنی اس معاہدے پر کامل طور پر عمل کرے ﴿فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ ” تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم دے گا۔“ اس اجر کی عظمت اور قدر کو صرف وہی جان سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ یہ اجر عطا کرے گا۔