فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ
پس مسلمانو ! تم ہمت نہ ہارو (١٨) اور کافروں کو صلح کی دعوت نہ دو، اور تم ہی بالآخر غالب رہو گے، اور اللہ تمہارے ساتھ ہے، اور وہ تمہارے اعمال کا اجر ہرگز کم نہیں کرے گا
اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ فَلَا تَهِنُوا﴾ یعنی اپنے دشمن کے ساتھ قتال کرنے میں کمزوری نہ دکھاؤ اور تم پر خوف غالب نہ آئے، بلکہ صبر کرو اور ثابت قدم رہو اپنے رب کی رضا، اسلام کی خیر خواہی اور شیطان کو ناراض کرنے کے لئے اپنے نفس کو قتال اور جانفشانی پر آمادہ کرو اور محض آرام حاصل کرنے کے لئے تم دشمن کو امن اور صلح کی دعوت نہ دو۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ حالانکہ ﴿ أَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّـهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ﴾ ” تم ہی غالب رہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ کمی نہیں کرے گا ” ﴿أَعْمَالَكُمْ﴾ ” تمہارے اعمال میں۔ “ یہ تین امور، ان میں سے ہر ایک صبر اور عدم ضعف کا تقاضا کرتا ہے۔ (1) ان کا غالب آنا، یعنی ان کے لئے فتح و نصرت کے وافر اسباب مہیا کردئیے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے ساتھ سچا وعدہ کیا گیا ہے۔ انسان صرف اس وقت کمزور ہوتا ہے جب وہ مخالفین کی نسبت کمتر تعداد، سازوسامان اور داخلی اور خارجی قوت کے اعتبار سے ان کی نسبت کمزور ہو۔ (2) اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے، کیونکہ وہ مومن ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی نصرت اور تائید کے ذریعے سے اہل ایمان کے ساتھ ہے۔ یہ چیز ان کے دلوں کو طاقت اور قوت عطا کرنے اور دشمن کے خلاف اقدام کرنے کی موجب ہے۔ (3) اللہ تعالیٰ ان کے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا بلکہ انہیں پورا پورا اجر عطا کرے گا اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ عطا کرے گا۔ خاص طور پر جہاد کی عبادت میں، کیونکہ جہاد میں خرچ کیے ہوئے مال کا اجر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ ذٰلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللّٰـهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللّٰـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ وَلَا يُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللّٰـهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ (التوبۃ: 9؍120۔ 121) ” یہ اس سبب سے ہے کہ انہیں اللہ کے راستے میں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے، پیاس، تھکاوٹ یا بھوک کی تکلیف، یا وہ ایسی جگہ چلتے ہیں جس سے کفار کو غصہ آئے، یا دشمنوں سے کچھ حاصل کرتے ہیں تو اس کے بدلے ان کے لئے ایک نیک عمل لکھ لیا جاتا ہے۔ بے شک ا للہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا اور جو تھوڑا یا بہت خرچ کرتے ہیں، یا کوئی وادی طے کرتے ہیں تو سب کچھ ان کے لئے لکھ لیا جاتا ہے تاکہ اللہ ان کو ان کے اعمال کی بہترین جزا دے۔ “ جب انسان کو اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے عمل اور جہاد کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا تو یہ چیز اس کے لئے نشاط اور ان امور میں کوشش کرنے کی موجب بنتی ہے جن پر اجرو ثواب مترتب ہوتے ہیں۔ تب کیسی کیفیت ہوگی اگر یہ تینوں مذکورہ امور مجمتع ہوں؟ بلاشبہ یہ چیز نشاط کامل کی موجب ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے ترغیب اور ایسے امور کے لئے ان میں نشاط اور قوت پیدا کرنا ہے جن میں ان کی بھلائی اور فلاح ہے۔