وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ ۖ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ ۙ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَأَوْلَىٰ لَهُمْ
اور اہل ایمان کہتے ہیں کہ (جہاد کے لئے) کوئی سورت (١١) کیوں نہیں نازل کی گئی ہے، پس جب ایک محکم سورت نازل کی گئی، اور اس میں جہاد کا حکم بیان کیا گیا، تو آپ نے ان لوگوں کا مشاہدہ کیا جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری تھی، وہ آپ کی طرف اس آدمی کی نظر سے دیکھ رہے تھے جس پر موت کی بے ہوشی طاری ہو، پس بربادی ہے ان کے لئے
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ وہ لوگ جو ایمان لائے مشکل کاموں کے لئے جلدی مچاتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ ﴾ ” کوئی سورت کیوں نازل نہیں ہوتی۔“ یعنی جس میں قتال کا حکم دیا گیا ہو ﴿ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ ﴾ ” پس جب کوئی محکم سورت نازل ہوتی ہے۔“ یعنی اس کے عمل کا لازم ٹھہرایا گیا ہو ﴿ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ ﴾ ” اور اس میں جہاد کا ذکر ہو۔“ جو کہ نفس پر سب سے زیادہ گراں ہوتا ہے۔ تو جن کا ایمان کمزور تھا وہ اس پر ثابت قدم نہ رہے، اس لئے فرمایا : ﴿ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ﴾ ” جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے، تم نے ان کو دیکھا کہ وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھتے ہیں، جس طرح کسی پر موت کی بے ہوشی طاری ہو رہی ہے۔“ ان کے قتال کو ناپسند کرنے اور اس کی شدت کے باعث۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے : ﴿ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللّٰـهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ﴾ (النساء : 4؍77)’’کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا، جن سے کہا گیا، اپنے ہاتھوں کو روک لو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، پس جب ان پر قتال فرض کیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ کا یہ حال ہے کہ لوگوں سے اس طرح ڈر رہے ہیں جس طرح اللہ سے ڈرنا چاہیے یا اس سے بھی زیادہ۔“ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس چیز کی طرف بلایا جو ان کے حال کے زیادہ لائق ہے۔ ﴿ فَأَوْلَىٰ لَهُمْ طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَّعْرُوفٌ ﴾ یعنی ان کے لئے بہتر ہے کہ وہ موجودہ حکم ہی کی تعمیل کریں جو ان پر واجب کیا گیا ہے، اسی پر اپنے ارادوں کو جمع رکھیں اور یہ مطالبہ نہ کریں کہ ان کے لئے ایسا حکم مشروع کیا جائے جس کی تعمیل ان پر شاق گزرے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ عفو و عافیت پر خوش ہونا چاہیے۔